Stop advertising | اشتہار بازی بند کریں
positive thinking, positive society
- Stop advertising people's problems.
- Let the problems of the houses be confined to the houses.
- Change the society, change the thinking.
Stop advertising | اشتہار بازی بند کریں
ہمارا معاشرہ کئی ایسے مسائل سے دو چار ہے جو اندر ہی اندر اسے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں، ان مسائل نے نہ صرف اس معاشرے ، گھروں بلکہ لوگوں کی زندگیوں کی جڑیں بھی کھوکھلی کر دی ہیں۔ کچھ لوگ ہمدرد بن کر جو وار دلوں پر کر جاتے ہیں وہ صرف سہنے والا ہی جان سکتا ہے اور اپنائیت دکھا کر جو اشتہار بازی لوگ کرتے دکھائی دیتے ہیں ایک بار یہ خیال ضرور آتا ہے کہ کیا انہیں خوفِ خدا نہیں۔ آپ کے بولے گئے چند الفاظ کسی کے دل پر کیسی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں کوئی نہیں جانتا جیسے
تیس سالوں کی ہو گئی ابھی تک رشتہ نہیں ہوا؟
سال 35 کا ہو گیا یے اور ابھی تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملی ؟
اتنی سانولی رنگت ، کیسے رشتہ ہو گا بچاری کا۔
چار سال ہو گئے شادی کو ابھی تک اولاد نہیں ہوئی؟
تیسری بیٹی پیدا ہو گئی؟ ہائے اللہ بچارہ بیٹیوں کے بوجھ تلے آ گیا۔
بیٹے کے لیے دوسری شادی کر لو ،وارث ہونا چاہیئے وارث ۔
یہ اور اس جیسے دوسرے کئی سوالات اور مفت مشورے جو شاید اگر میں لکھنے بیٹھوں تو لفظ کم پڑ جائیں مگر وہ جملے ختم نہ ہوں جو
دن رات ہمارے معاشرے کے کئی مردوں اور عورتوں کے ذہنوں پر ہتھوڑے کی ضرب کی مانند ٹھوکر لگا رہے ہوتے ہیں۔ مگر کاش کوئی سمجھ سکتا کہ جب کسی کنواری لڑکی کی عمرحد سے تجاوز کرنے لگے تو نہ صرف وہ لڑکی بلکہ اس کے والدین بھی کس قرب سے گزر رہے ہوتے ہیں۔
اکثر معاشرے میں لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ جتنے دن لڑکی والدین کے گھر میں بیٹھی ہے سکھی ہے،لیکن سچ تو یہ ہے کہ جب ایک لڑکی عرصہ دراز تک کنواری بیٹھی رہے تو یہی معاشرہ اس لڑکی اور اس کے والدین کے لیے زمین تنگ کر دیتا ہے۔
معاشرہ ہم انسان ہی بناتے ہیں اور اگر ہم چاہیں تو اس سوچ کو بھی بدل سکتے ہیں ہماری ایک کوشش کنواری بیٹھی بیٹی کو بوجھ بننے سے بچا سکتی ہے۔
میزیں سجا کر اس رشتہ ٹرینڈ کو ختم کریں کیونکہ سب سے زیادہ ہمارے کلچر کو اس رسم نے خراب کر رکھا ہے، دوسروں کی بیٹیوں کو شو پیس بنوا کر دیکھ لیا، کھانا بھی کھا لیا اور پھر کسی دکان پر دیکھے جانے والے کپڑے کی طرح یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ آپ کی بیٹی ہمارے بیٹے کے لیے مناسب نہیں لگی۔
Stop advertising | اشتہار بازی بند کریں
یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر جتنا لکھا جائے کم ہے، لبِ لباب یہ کہ کسی کی بیٹی کو نمائش نہ سمجھیں، کسی کی بیٹی کو کم تر نہ جانیں، گھر بیٹھی بیٹی کے لیے زمین تنگ نہ کریں۔
عورتیں تو معاشرے کی ظالم زبان کا نشانہ بن ہی رہی ہیں کئی مرد بھی اس تکلیف سے دوچار ہوتے ہیں خاص طور پر آج کے دور کا بے روزگار نوجوان طبقہ جو اس معاشرے کے تلخ رویوں کی وجہ سے شدید زہنی دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔ اگر کوئی بھی پڑھا لکھا نوجوان ایک اچھی نوکری نہیں کر رہا تو اسے سو طرح کے مشورے دئیے جائیں گے، مستقبل کی تباہی دکھائی جائے گی یہاں تک کے اس کے والدین کو بھی اسے یہ کہہ کر بد زن کر دیا جائے گا کہ یہ تو “نکھٹو ” ہے باپ کا سہارا نہ بن سکا۔ معاشرے کے انہیں کاٹ دار جملوں نے کئی نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کاش ہم اس بات کو نارمل رہنے دیں تو کم از کم کوئی بے روزگار نوجوانوں یہ جانتے ہوئے کہ مایوسی کفر اور خود کشی حرام ہے ، ایسا شدید قدم اٹھاںے کے بارے میں نہ سوچے۔
اب اگر بات کی جائے شادی شدہ مرد اور عورت کی تو ان کے اوپر تو زمہ داریوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کی امیدوں پر پورا اترنا بھی بہت لازم ہو جاتا ہے۔ یہاں میں ایک بات واضح کر دینا چاہتی ہوں کہ وہ معاشرہ سسرال یا میکہ نہیں بلکہ معاشرہ ، محلے داری اور دیگر رشتہ دار ہیں جو اولاد نہ ہونے پر عورت کو بانجھ پن کے طعنے دے دے کر جیتے جی مار دیتے ہیں اور مرد کو دوسری شادی اور بیٹی کی پیدائش پر بلا وجہ کی فکرِ معاش میں ڈال کر پریشان کر دیتے ہیں۔ اور پھر ایک بیٹی کے لیے سب سے قابلِ ترس بات یہی ہوتی ہے جب اس کے باپ کو بیٹے کے لیے دوسری شادی کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اور اس سب میں بھی قصور وار یہ معاشرہ ہی ہے جس نے مرد کے اندر اس سوچ کو پنپنے دیا ہے کہ بیٹا نہ ہو تو دوسری شادی کر لو ورنہ نسل نہیں بڑھے گی وارث کہاں سے آئے گا۔
لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسی عظیم ہستی کی نسل بھی بیٹی سے چلی تھی تو ہم کون ہوتے ہی محض بیٹے کے غرض سے دوسری شادی کرنے والے، بیٹیوں کی وقعت صرف اس معاشرے کی چھوٹی سوچ کا نتیجہ ہے۔ ان سے پوچھیں بیٹیوں کی قدر جو اولاد تک کو ترس رہے ہوتے ہیں اور انہیں بھی دن رات یہی مشورے دیے جاتے ہیں کہ دوسری شادی کر لو۔
مگر میری آپ سب سے، ہر ایک پڑھنے والے سے یہ درخواست ہے کہ خدارا کم سے کم آپ معاشرے کی اس سوچ کا حصہ نہ بنیں اور لوگوں کی زندگیوں میں موجود مشکلات میں اضافہ نہ کریں۔ ان تمام چیزوں، ان تمام باتوں کو نارمل رہنے دیں جنہیں اس معاشرے نے موت کا سا مسئلہ بنا رکھا ہے۔ اشتہار بازی سے گریز کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کا ایک تلخ جملہ کسی کی زندگی کو ختم کر دے۔
If we consider some problems related to people’s life as normal, many people can get out of the life of hopelessness and live a normal life.