- Tragic incident of Army public peshawar.
- Sad story of martyred children.
- The Unexpected Narrative of Terrorism.
Peshawar school massacre | سانحہ پشاور
سولہ دسمبر کی صبح جب سورج نے امید کی کرنوں کے ساتھ دن کا آغاز کیا، کوئی یہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ یہ دن کتنی ماؤں کے دلوں کو دلوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالے گا، کتنے باپ اپنے جگر گوشوں کی جدائی میں سالوں آنسو بہائیں گے، اور کتنے بچوں کے خواب ادھورے رہ جائیں گے۔ دہشت گردی کے اس غیر متوقع واقعے نے نہ صرف کئی قیمتی جانیں چھین لیں بلکہ پورے ملک کو برسوں کے لیے غم کی چادر میں لپیٹ دیا۔سولہ دسمبر کی اس صبح منہ پر نقاب اوڑھے ہاتھوں میں بندوقیں لیے کچھ افراد نے کلاس رومز کا رخ کیا اور کتابوں پر جھکیں ننھی جانیں سہم کر رہ گئیں۔ بے حس دہشت گردوں نے گولیاں چلانا شروع کر دیں کچھ بچے اپنا دفاع کرنے کی کوشش میں لگ گئے اور کچھ وہیں ہمت کے ساتھ ساتھ زندگی کی بازی بھی ہار گئے ، دفاع کرنے والوں میں سے بھی شاید ہی کوئی بچ سکا ہو گا، سفاک دہشت گروٹ ے سینکڑوں گھروں کے چراغ ہمیشہ کے لیے بجھا دئیے، دہشت گردی کے دل دہلا دینے والے اس حادثہ میں ٹوٹل 144 بچوں کی شہادت ہوئی، اور جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کو دیکھا وہ آج تک اسی صبح کے حصار میں قید ہیں۔
Peshawar school massacre | سانحہ پشاور
یہ محض ایک سانحہ نہیں تھا، نہ ہی یہ چند بچوں کی شہادت تھی، بلکہ یہ کئی گھروں میں بسنے والے مستقبل کے معماروں اور خوابوں کا قتل تھا اور اس ملک کے مستقبل سے جڑے کئی بہادر نوجوانوں کا قتل تھا۔ ایک لمحے میں سکول کے ہنستے کھیلتے بچے خون میں لت پت ہو گئے، کلاس روم علم کے چراغوں کی بجائے ماتم کے گواہ بن گئے، اور والدین کی دعاؤں کی جگہ چیخوں اور آہوں نے لے لی۔ جہاں سانحہ اے پی ایس پشاور میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی مائیں ان کے پسندیدہ کھانے بنانے کی فکر میں تھیں وہیں انہیں ان کے جگر گوشوں کو کفن میں لپیٹ کر پیش کیا گیا۔ اس واقعے نے پورے پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لوگ گھروں سے باہر نکل کر اس ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے لگے۔ شہداء کے لیے دعائیں ہونے لگیں، احتجاجی مظاہرے ہوئے، اور دہشت گردی کے خلاف اتحاد کے نعرے با آوازِ بلند لگائے گئے۔ مگر وہ جس ماں کے گھر کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گیا ہو، وہ جس باپ کے آنکھوں کے نور کو اس کی آنکھوں سے نوچ کر قبر میں دفنا دیا گیا ہو، ان کے لیے تو ہر چیز بے معنی ہو جاتی ہے،ان کی تو اپنی زندگی ہی سوالیہ نشان بن کہ رہ جاتی ہے۔ ہم ان والدین کے لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ مگر ہم اپنے لیے، اس ملک کے مستقبل کے لیے ایک کام ضرور جر سکتے ہیں ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو امن و سلامتی کا پیغام دینا ہو گا، ہمیں اپنے بچوں کو بھائی چارے کا درس دینا ہو گا۔ تاکہ مستقبل میں دہشت گردی جیسی کوئی بھی بیماری ان کو چھو کہ بھی نہ گزرے، احساس ، اپنائیت، محبت اور بھائی چارے کا جزبہ ان کی رگ رگ میں بھرا ہو۔