All About Islam — انسان اور اسلامTrending

Imam e Husain (A.S)

Waqea E Qarbala

Highlights of the article
  • Ashura is not just a date, it's a timeless call for truth and revolution.
  • Imam Hussain (RA) stood against tyranny with faith, courage, and sacrifice.
  • Karbala teaches that standing alone for justice can change the course of history.
  • True love for Hussain (RA) means living by his values, not just mourning him.

Legacy of sacrifices | زندہ ہے حسینؓ، زندہ ہے پیغام

یومِ عاشورہ، محرم الحرام کی دسویں تاریخ، اسلامی تاریخ کا وہ دن جو صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک انقلاب کی صدا ہے۔ ایک ایسا لمحہ جس میں صدیوں کا سچ چھپا ہوا ہے۔ جب بھی یہ دن آتا ہے، دل کربلا کی یاد سے لبریز ہو جاتا ہے، اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔ یہ دن ہمارے ایمان کو تازگی بخشتا ہے۔

نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ کا نام آتے ہی دل میں عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک ایسا جوان جس نے مدینے کی پاک گلیوں میں رسول اللہ ﷺ کی گود میں کھیل کر پرورش پائی، جس کے لیے نبی ﷺ نے فرمایا: “حسین منی و انا من الحسین”… جسے دیکھ کر نبیﷺ کھڑے ہو جایا کرتے تھے… وہی حسینؓ جب کربلا کے تپتے ریگستان میں ظالم حکمران کے خلاف کھڑا ہوا تو دنیا کے لیے ایک مثال بن گیا۔ وہ پیاس جو تین دن تک خیموں میں سلگتی رہی، وہ آہ و فغاں جو ماؤں اور بچوں کے لبوں پر رہی، وہ سجدے جو کٹتے ہوئے سروں کے ساتھ ادا ہوئے، وہ علم جو بازو کٹنے کے بعد بھی نہ جھکا، وہ چہرے جو نیزوں پر بھی روشن رہے، یہ سب تاریخ کی وہ روشن سطور ہیں جو صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے پڑھی جاتی ہیں۔ اور یہ تمام واقعات تاریخ کی کتابوں اور لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ سنہری حروف میں درج رہیں گے۔
عاشورہ ہمیں سیکھاتا کہ اگرچہ ظالم طاقتور ہوتا ہے، لشکر اس کے ساتھ ہوتے ہیں، ہتھیار، اقتدار اور دنیاوی چمک دمک اس کے پاس ہوتی ہے، لیکن جب ایک حق پرست تنہا کھڑا ہوتا ہے تو وہ تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ حسینؓ کے دشمن ںے شک مظبوط تھے لیکن ان کا اپنا جزبہ فولاد جیسا تھا ، ان کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ بلند تھا، ان کی زبانیں ذکرِ الٰہی سے تر تھیں، اور ان کے دل صرف خدا پر یقین سے لبریز تھے۔

حضرت حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ پوری امت کے لیے ایک راستہ کھولا۔ وہ راستہ جو سچائی کا، غیرت کا اور باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا ہے۔ آج اگر کوئی سچ بولنے سے ڈرتا ہے، ظلم کے خلاف خاموش رہتا ہے، یا صرف اپنی جان بچا کر دین کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے، تو وہ حسینؓ کی نہیں، یزید کی راہ پر ہے۔
کربلا کا درد محض ماضی کی ایک اداس تصویر نہیں، بلکہ ہر زمانے کا زندہ پیغام ہے۔ جب تک دنیا میں ظلم ہے، کربلا کا پیغام زندہ ہے۔ جب تک جابر حکمران موجود ہیں، حسینؓ کی یاد زندہ رہے گی۔ اور جب تک انسانیت باقی ہے، امام حسینؓ کا نام حق کی علامت بن کر چمکتا رہے گا۔

Legacy of sacrifices | زندہ ہے حسینؓ، زندہ ہے پیغام

یومِ عاشورہ کو صرف ایک غمگین دن کے طور پر منانا کافی نہیں، ہمیں اس دن کے مقصد کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آج ہمارے معاشرے میں کتنے یزید بستے ہیں؟ کتنی جگہوں پر سچ کچلا جا رہا ہے؟ کہاں کہاں پر دین کی روح کو مسخ کیا جا رہا ہے؟ اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم بھی حسینؓ کی طرح باطل کے خلاف سینہ سپر ہیں یا محض تماشائی؟
اگر ہم واقعی امام حسینؓ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں ان کے راستے پر چلنا ہوگا۔ ان کا راستہ قربانی کا ہے، صبر کا ہے، حوصلے کا ہے۔ یہ وہ راستہ ہے جس میں زبان کو جھوٹ سے پاک کرنا ہے، دل کو حسد سے صاف کرنا ہے، اور کردار کو اتنا بلند کرنا ہے کہ باطل سامنے آ کر بھی نظریں نہ ملا سکے۔
یاد رکھیے، عاشورہ کا روزہ رکھنا سنت ہے، آنسو بہانا فطری ہے، مجالس میں شریک ہونا بہتر ہے، لیکن ان سب سے بڑھ کر ضروری ہے کہ ہم دل سے امام حسینؓ کے پیغام کو اپنائیں۔ وہ پیغام جو کہتا ہے:

“زندگی ذلت میں نہیں، عزت کی موت میں ہے۔”
جب شمر نے امام حسینؓ کا سر تن سے جدا کیا، تو یہ سمجھا کہ اب قصہ ختم ہو گیا۔ لیکن وہ نہ جانتا تھا کہ اس نیزے پر بلند ہونے والا وہ سر رہتی دنیا تک جھکنے والوں کو شرمندہ کرتا رہے گا۔ وہ لہو جو کربلا کی ریت پر بہا، وہ رائیگاں نہیں گیا—وہ لہو ایک نظریہ بن گیا، ایک صدا بن گیا، جو ہر مظلوم کو جگاتی ہے، ہر حق پرست کو بیدار کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں، ہر نسل، ہر قوم، ہر زبان میں حسینؓ کا نام احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ صرف مسلمانوں کے امام نہیں، وہ ہر انسان کے ضمیر کی آواز ہیں۔ ایک ایسی آواز جسے دبایا نہیں جا سکتا، جسے مٹایا نہیں جا سکتا۔
آج ہمیں خود سے سوال کرنا ہے: کیا ہم نے حسینؓ کو صرف ماتم تک محدود کر دیا ہے؟ کیا ہم نے ان کی تعلیمات کو صرف عشرہ محرم کی نذر کر دیا ہے؟ اگر ہاں، تو ہم نے بہت بڑی کوتاہی کی ہے۔ ہمیں ان کے راستے کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا، اپنے فیصلوں، اپنے رویوں، اپنی سوچ میں حسینؓ کو بسانا ہوگا۔
عاشورہ ہمیں رونے کے لیے نہیں، جاگنے کے لیے آیا ہے۔ ہمیں جگانے کے لیے آیا ہے کہ ہم خواب غفلت سے نکلیں، سچائی کو اپنائیں، اور باطل کو للکاریں۔
حسینؓ زندہ ہیں،ان کے لہو کی مہک آج بھی فضا میں ہے،ان کی قربانی کا اثر آج بھی دلوں کو بدلتا ہے، اور ان کا پیغام آج بھی صدا دیتا ہے:

“ظلم کے خلاف اٹھو! سچ کے لیے جیو! اور اگر وقت آئے، تو حسینؓ کی طرح جاں دے کر امر ہو جاؤ۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button