- National Unity and Patriotism
- Defence Day marks the bravery and sacrifices of Pakistani armed forces.
- Defence Day is a significant reminder of the resilience and commitment of Pakistan’s armed forces to safeguard the nation.
Defence Day of Pakistan
٦ ستمبر۔ یوم دفاع کا دن۔ یہ دن ‘دفاع کا دن’ کیوں کہلاتا ہے؟ شاید اسی لیے کہ اس دن ہندوستان نے ہم پر حملہ کیا تھا اور ہم نے اپنی سرزمین کا دفاع کیا تھا۔
پر کیا اس دن ہم نے ‘صرف’ اپنی سرزمین کا دفاع کیا تھا یا اپنی بقاء کا دفاع بھی کیا تھا؟ کیا اس دن ہم اکیلے لڑ رہے تھے یا اللہ کی مدد بھی شامل تھی؟ اگر تھی تو کیسے کی تھی اللہ نے مدد؟ آخر کیا ہوا تھا اس دن؟
آج میں اس دن کے چند مناظر بیان کرنے کی کوشش کروں گی اور امید کروں گی کہ میرے ساتھ آپ بھی اس دن کی یاد کو تازہ کرے گے۔ آج آپ کو بھی اپنی قوم ، اپنی افواج اور اپنی اس سرزمین پر پھر سے فخر ہوگا۔
٦ ستمبر سن ١٩٦٥ء اس دن کا آغاز ہی ایک سنسنی خیز خبر سے ہوا جب اس وقت کے وزیراعظم محمد ایوب خان نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے سے تقریر کی۔ وہ تقریر یہ تھی۔۔
“میرے عزیز ہم وطنوں السلام علیکم! دس کروڑ پاکستانیوں کے امتحان کا وقت آپہنچا ہے۔ آج صبح سویرے ہندوستانی فوج نے پاکستان کے علاقے پر لاہور کی جانب سے حملہ کیا اور باقی ہوائی بیرے نے وزیرآباد سٹیشن پر ٹھہری ہوئی ایک مسافر گاڑی کو اپنے بزدلانہ حملے کا شکار بنایا۔ پاکستان کی دس کروڑ عوام جن کے دل کی ڈھڑکن میں لا إله إلا الله محمد رسول الله کی صدا گونج رہی ہے۔ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائے۔ہندوستانی حکمران شاید ابھی نہیں جانتے کہ انہوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین کامل ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ملک میں آج ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیا گیا ہے۔ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ دشمن کو فنا کرنے کے لیے ہمارے بہادر فوجیوں کی پیش قدمی جاری ہے۔ اللہ تعالٰی نے پاکستان کی مصلح فوجوں کو جوہر دکھانے کا موقع دیا ہے۔ میرے ہم وطنوں آگے بڑھوں اور دشمن کا مقابلہ کرو۔ خدا تمہارا ہامی و ناصر ہو۔ آمین۔ پاکستان پائندہ باد۔
ستمبر یومِ دفاع پاکستان | Defence Day of Pakistan
یہ تھی وہ تقریر جو اس وقت کے وزیراعظم نے کی تھی۔ اب ذرا۔۔۔’جنگ شروع ہو چکی ہے’۔۔۔ اس فقرے پر غور کرتے ہیں۔ یہ واحد فقرہ ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑانے کے لیے کافی ہے۔ مگر کیا اس فقرے نے میری قوم کا حوصلہ پست کیا؟ نہیں جناب یہ فقرہ بھی میری قوم کا حوصلہ پست نہیں کر سکا۔ اس وقت پاکستان کی پوری قوم نعرہ تکبیر لگاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آئی تھی۔ یہ تھا میری قوم کا جذبہ۔ وسائل نہیں تھے پر ایمان تھا۔
اب ذرا دشمن کی بات کرتے ہیں۔ دشمن ہم سے پانچ گنا بڑا تھا۔ حملہ بہت شدید تھا کہ تقریبا پانچ پانچ سو ٹینک استعمال کیے گئے۔ تقریباً پانچ سو ٹینک لاہور میں اور پانچ سو کے قریب سیالکوٹ کے اوپر حملے میں استعمال کیے گئے۔ اور یہ دونوں ہمارے سرحدی شہر تھے۔ پاکستان جنگ کے لیے تیار نہیں تھا۔ تو پھر کیسے پاکستان نے اپنا دفاع کیا؟ یہ پہلا سوال ہے جو دشمن کی تعداد سننے کے بعد ذہن میں آتا ہے۔ اور اس سوال کا جواب اس جنگ کے واقعات میں ہی ہیں۔
اگر آپ واقعات سنے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آخر ہم یہ دن اتنے زور و شور سے کیوں مناتے ہیں۔ آخر کیوں ہم اس دن کو اپنے اسلحے کی نمائش کرتے ہیں۔
چند ایک واقعات کا جو تاریخ میں لکھے گئے ہیں۔ میں ان کا ذکر کروں گی۔
سب سے پہلے میں اپنی افواج کے بہادر جری سپوتوں کا ذکر کروں گی۔
اس وقت کے ایئر چیف نور خان کا ذکر کروں گی۔ ان کے حوصلے کا ذکر کروں گی جب انھوں نے کہا کہ “یہ اسورٹیز نہیں جائے گی۔ جب تک میں خود نہ دیکھ لوں کہ یہ کتنی خطرناک ہے ہمارے پائلٹز کے لیے۔”
پاکستانی فوج دنیا کی افواج کے مقابلے میں وہ واحد فوج ہے جس میں افسر کیجیولٹی ریٹ زیادہ ہے۔ کیونکہ ہمارے افسر آگے بڑھ کر لیڈ کرتے ہیں۔
میں نیوی کا ذکر کروں گی۔ جس کے پاس اس وقت ایک سنمبرین تھی۔ “غازی۔ ” اس ایک سنمبرین نے پاکستان میں بحری راستے سے دشمن کا داخلہ بند کیا ہوا تھا۔ پاکستان نیوی نے صرف حفاظت نہیں کی بلکہ حملہ بھی کیا تھا۔ پاکستان نیوی آگے بڑھی دوارکہ پہ گئ، دوارکہ کے قلعے کو تباہ کیا اور پھر نکل کر واپس آئی۔
اب چند معجزات کا ذکر کرتے ہیں۔ ١٩٦٥ کی جنگ میں ایسے ایسے معجزات دیکھنے کو ملے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ چند ایک کا ذکر کروں گی۔
ستمبر یومِ دفاع پاکستان | Defence Day of Pakistan
ایک سیکٹر پر ہماری توپوں کی مدد کی ضرورت پڑی۔ ہماری پیادہ فوج کے مورچے تھے جن پر دشمن کے ٹینکوں کا دباؤ بہت شدید تھا اور ہماری توپوں کی آخری حد سے بھی دو تین کلومیٹر آگے دشمن کے ٹینکوں کی پوزیشن تھی۔ اور جب مدد مانگی گئی تو حساب لگایا گیا کہ ہماری توپوں کے گولے دشمن تک نہیں پہنچ سکتے۔ اور صورتحال یہ تھی کہ اگر اس وقت مدد نا مانگی جاتی تو سیالکوٹ شہر کے ایک سیکٹر پر دشمن قبضہ کر لیتا۔ اللہ کے توکل پر یقین کرے۔ افسروں کی آنکھوں میں آنسوؤں آگئے۔ انہوں نے اللہ کے بھروسے پہ، اللہ کے آسرے پہ یقین کر کے دشمن کی طرف توپوں کا منہ کر کے فائر کیے اور نا قابل یقین بات ہے۔ تین منٹ کے بعد وائرلیس پہ جو آگے ہمارے مورچے تھے وہاں سے نعرہ تکبیر کی آوازیں آنے لگی۔ نا اس سے پہلے کبھی توپ نے اتنا دور فائر کیا تھا نا اس کے بعد کبھی اتنا دور فائر کیا۔ اس موقع پر جب ضرورت تھی تو اللہ کی طرف سے تائید آئی۔
ہزاروں واقعات ایسے ہیں۔ یہ باتیں بزرگوں نے کتابوں میں بھی لکھی ہیں آپ ممتاز مفتی کی کتابیں اٹھا کہ دیکھ لیجیے۔ یہ تمام واقعات اس زمانے کے اخبارات میں بھی چھپے ہیں۔
جب دشمن کے طیاروں کو ذمہ داری دی گئی کہ راوی کے پل پر بمباری کرنی ہے۔ تو وہ پائلٹ جب پکڑا گیا۔ تو اس سے پوچھا گیا کہ پل تو تمہارے سامنے تھا تم نے بمباری کیوں نہیں کی؟ تو انہوں نے کہا ‘ہمیں کہا گیا تھا کہ وہاں ایک پل ہے ہمیں چھ پل نظر آ رہے تھے۔’ دشمن کے پائلٹز نے یہ باتیں کہی ہے کہ ہم بمب گراتے تھے، راولپنڈی پہ پینتیس سے چالیس کے قریب بمب گرے مگر اس میں سے چار سے پانچ پھٹے وہ بھی ویرانے میں۔ یہ اللہ کی مدد تھی۔
ستمبر یومِ دفاع پاکستان | Defence Day of Pakistan
بزرگ کہتے ہیں کہ
“فضائے بدر پیدا کرو۔ ملائکہ آج بھی مدد کے لیے نازل ہونگی۔”
جب بھی مسلمان اللہ اور رسول کے نام پر اس سرزمین کی حفاظت کے لیے کھڑے ہونگے اللہ کی تائید و نصرت آئے گی۔ ١٩٦٥ کی جنگ اس کی ایک خوبصورت مثال ہے۔
ابھی تو میں نے شہداء کی بات نہیں کی۔ ابھی تو میں نے غازیوں کی بات نہیں کی۔ ابھی تو اس قوم کی ماؤں بہنوں کی بات نہیں کی۔ ابھی تو میں نے اس سرزمین پاک کے لیے قربانیوں کی لازوال داستان شروع ہی نہیں کی۔
بات طویل تر طویل ہوتی جارہی ہے۔ اختتام میں بس اتنا ہی کہو گی۔
جب اس وطن کے دفاع کی بات آتی ہے تو جری سپوت یہ نہیں کہتے کہ اس وطن نے ہمیں دیا ہی کیا ہے بلکہ سیسہ پلائی دیوار بن کر اس کا دفاع کرتے ہیں۔
پاکستان اللہ کے رازوں میں سے ایک ہے۔ یہ سرزمین اللہ کے نام پر آزاد ہوئی تھی اور اسی ذات نے ہر قدم پر اس کی حفاظت کی ہے۔
جب میں اس وطن کے پرچم کو دیکھتی ہوں تو مجھے لازوال قربانیاں، ان کہی داستانیں یاد آتی ہے۔ ماؤں کی دھائی دیتی آوازیں، اجڑی عورتیں اور یتیم بچے یاد آتے ہیں۔ یہ پرچم ہمیں بہت مشکل سے ملا ہے۔ خدارا اسے گرنے نا دے۔
پاکستان پائندہ باد۔