Personalities
Trending

Bano Qudsia

Bano Qudsia — A brief Biography

Bano Qudsia
  • A brief Biography of Bano Qudsia
  • A novelist, drama writer, play writer and a spiritual figure.
  • A Well known name in the Urdu Literature of Pakistan
  • Her words are still fresh today

Bano Qudsia | بانو قدسیہ

ادب کی دنیا کاایک ایسا شاہکار ہیں جنکی خدمات کسی بھی دور میں فراموش نہیں کی جا سکتی۔ انکی مختصر کہانیوں سے لیکر طویل ناولز اور ڈراموں تک ہر چیز نا قابلِ فراموش ہے۔ بانو قدسیہ ٢٨ نومبر ١٩٢٨ میں برطانوی ہند میں پیدا ہوٸیں اور تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان سمیت لاہور ہجرت کر گٸیں۔ اپنی کم عمری میں ہی انہوںنے مختصر کہانیاں لکھنا شرو کر دی تھیں۔ اور میٹرک میں بہنچنے تک انہوں متعدرد کہانیاں تخلیق کر لی تھیں۔ گورنمنٹ کالج اینڈ یونیورسٹی لاہور سے انہوں نے اردو ادب میں ایم اے کیا جو کہ ١٩٥١ میں مکمل ہو۔ ماسٹرز کے اس تعلیمی دور میں ہم اشفاق احمد صاحب کو کیسے بھول سکتے ہیں۔

وہ بانو قدسیہ کے کالس فیلو تھے اور پھر وہ انکی زندگی میں مجازی خدا کی حیثیت اختیار کر گٸے۔ ١٩٥٠ تک بانو قدسیہ نے کٸی افسانے اور کہانیاں لکھیں مگر انہیں شاٸع نہ کر سکیں۔آخر کار ١٩٥٠میں اشفاق احمد صاحب کی حوصلہ افزاٸی پر انکا پہلا افسانہ ”داماندگی شوق” اس وقت کے سر کردہ جریدے ”ادب لطیف“ میںشاٸع ہوا۔ دسمر ١٩٥٦ میں بانو قدسیہ کی اشفاق احمد سے شادی ہو گٸی۔دونوں لکھاری تھے اور ادب سے بے پناہ عشق کرتے تھے۔ شادی کے بعد دونوں لکھاری مل کا محنت کرنے میں جت گٸے اور ایک سال بعد یعنی ١٩٥٧ میں ایک ادبی رسالے ”داستان گو“ کا اجرا کیا گیا۔ یہ جوڑا اپنی تحریروں سے جُڑا ہر کام خود کرتا تھا۔

Bano Qudsia | بانو قدسیہ

اگر بات کی جاٸے ڈراموں کی تو اس میں کوٸی شاٸبہ نہیں کہ وہ ایک بہت اچھی ڈرامہ راٸٹر بھی رہ چکی ہیں۔ انکے بہترین ڈراموں میں ، دھوپ جلی، خانہ بدوش، کلو، اور پیا نام کا دیا شامل ہیں۔ ناولز کی دنیا میں بانو نے جزبات اور اقدار کے بحران کو اپنا موضوع بنایا۔ ١٩٨١ میں شاٸع ہونے والا ناول ”راجہ گدھ“ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت ہے۔ انکے ٢٧ کے قریب ناول کہانیاں اور ڈرامے شاٸع ہو چکے ہیں۔ جن میں امربیل،حاصل گھاٹ، اور توجہ کے طلب قابلِ زکر ہیں۔ وہ ایک ایسی تخلیق کار تھیں کہ انکی تحریریں آج بھی عقل رکھنے والوں کی عقل دنگ کر دیتی ہیں یا یوں کہ لیا جاٸے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ انکی تحریریں اپنےآپ میں بہت بڑا شاہکار ہیں۔

کہ لیا جاٸے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ انکی تحریریں اپنےآپ میں بہت بڑا شاہکار ہیں۔انکی ادبی خدمات کس قدر بہترین تھیں اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے انکی خدمات کے اعتراف میں انہیں ٢٠٠٤ میں ستارہ امیتاز اور ٢٠١٠ میں ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔ اسکے علاوہ ٹیلی وژن کی دنیا میں بھی انہیں کٸی ایوارڑز دیے گٸے جو انکیے فن کے بہرتین ہونے کی عکاسی کرتے ہیں۔مگر کہتےہیں نہ کہ زندگی کسی کو ابدی نصیب نہیں ہوتی۔ ھو آیا ہےاس نے واپ بھی جانا ہے آخر کار ادب کی دنیا کا یہ سورج اپنی ساری آب و تاب کے ساتھ ٥ فروری ٢٠١٧ کو اس ہمیشہ کیلے اس دنیا سے غروب ہو گیا۔ مگر اپنی روشنی کے نشان ہمیشہ کیلے پیچھے چھڑ گیا۔اللہ بانو قدسیہکو جنت الفردوس میں ارعلیٰ مقام عطا فرماٸے۔آمین۔

Bano Qudsia | بانو قدسیہ

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button