- We are responsible for what our leaders do to us
- So its not just their responsibility to be good rulers
- But ours to be good citizens
ایک بہت بڑے لکھنے والے نے لکھا کہ “اگر مجھے کوٸی دعا مانگنے کا کہا جاۓ تو میں حکمرانوں کی اصلاح کی دعا مانگوں گا“مگر میری سوچ اسے بہت مختلف ہے اگر مجھے کبھی ایسی دعا منگنے کا موقع ملے جو لازماً قبول ہونی ہو تو میں”اعوام کی اصلاح کی دعا مانگوں گی”۔میں اس بات سے مکمل طور پر اختلاف کرتی ہوں کہ اگر ملک میں کرپشن ہے اگر ملک میں رشوت ہے سفارش عام ہے، یہاں تک کہ اگر سڑکوں پر کوڑا بھی پڑا ہے تو زمہ دار حکمران ہیں۔ ملک میں کوٸی بھی سماجی یا سیاسی لحاظ سے مسٸلہ ہے تو اس کا زمہِ دار حکمرانوں کو ہی کیوں ٹہرایا جاتا ہے؟ٹھیک ہے کچھ غلطیاں انکی بھی ہوں گی لیکن کبھی سوچا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اگر کرپشن ہے، رشوت عام ہے، پیسے کو چھپایا جا رہا ہ، غریب کا حق کھایا جا رہا ہے تو اسکی وجہ کون ہے؟ کیا اس کی وجہ بھی صرف حکمران ہیں؟ نہیں اس میں بہت سی چیزوں کی وجہ ہم خود ہیں۔اگر کرپشن ہے تو صرف حکمران زمہ دار نہیں ہے بہت سے ہم میں سے ہی بزنس مین سرکاری ملازمین حتیٰ کہ ایک چھوٹا دکاندار بھی کرپشن ملوث ہو گا۔ لیکن مسٸلہ صرف یہ ہے کہ ہمیں حکمران ہی برےلگتےہیں۔ اور ہم یہ بھی نہیں سوچتے کہ رشوت دے کون رہا ہے، ہم خود، سفارش کون لا رہا ہے ، ہم خود سسٹم میں ہیں کون لوگ ہم خود ہیں اور سسٹم میں پھیلی یہ گندگی ہماری اپنی پھیلاٸی گٸی ہے۔میں عمران خان کی بلکل سپورٹر نہیں ہوں۔
Leadership Of Pakistan | ہم اور ہمارے حکمران
مگر پھر بھی ایک بات کہوں گی کہ 2013 سے یہ بندہ تبدیلی کا نعرہ لگا لگا کر کھپ گیا ہے اور اب وہ باقاعدہ قانونی طور پر وزیرِ اعظم بن چکا ہے مگر اب بھی وہ ملک میں تبدیلی لانے کی بات تو کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک انسان کبھی تبدیلی نہیں لا سکتا وہ کہتے ہیں نہ کہ”آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے“یہاں ہر شخص ہی کسی نہ کسی لحاظ سے بگڑا ہوا ہے۔سیدھی سی بات ہے جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے کوٸی تبدیلی نہیں آٸے گی، کوٸی حالات نہیں بدلیں گے۔ یہ تو اللہ بھی کہتا ہے
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ:
سورت انفال آیت 53
یہ اس لیے کہ اللہ کا یہ طریقہ نہیں کہ کوئی نعمت جو اُس نے کسی قوم کو دی ہو اُس میں تغیر کرے جب تک کہ وہ قوم اپنی
اندرونی کیفیت کو متغیر نہ کر دے۔
مطلب جب تک ہم خود کوشش نہیں کریں گے شروعات خود سے نہیں کریں گے خود میں تبدیلی نہیں لاٸیں گے کچھ نہیں بدلے گا نہ ہم نہ ہمارے حکمران اور نہ ہماری حالت۔ اسکی ایک واضح مثال ہمارے ملک کی آزادی ہے ہم تب تک غلام رہے جب تک ہم رہنا چاہتے تھے جب ہم نے آزادی پانے کے لیے کمر کس لی تب آزادی مل بھی گٸی۔اس لیے پہلےخود کو بدلو اسکے بعد کسی حکمران کو گلہ دو۔کیونکہ جیسی قوم ہوتی ہے اسکو ویسے ہی حکمران ملتے ہیں۔