- In this race of life we have forgotten who we are.
- We are all ignorant even knowing.
- First know then understand then speak.
(Who am I ? | میں کون ہوں؟؟)- مجرم ہوں میں اس دنیا کی ہر تخلیق کا۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے اگر میرے معیار کو زنگ آلود بھی کر دیا جائے ۔۔تو کیا ہوا اگر میری روح کو بے زباں اور میرے دل کو کسی کاسئے یار کے گھروندے میں پرو دیا جائے ۔۔آخر فرق ہی کیا پڑتا ہے اگر میرے وجود کو سر راہ تماشا ہی بنا دیا جائے ۔۔۔کوئ مجھے حقیر سمجھے یا بے ضمیر،لا شعورسمجھے یا ناپاک۔۔۔میرا مقصد تو خود پرستی ہے نا۔۔۔ میرا مزاج تو ان سوچوں سے پرے ہے نا۔۔میں خود کو تو جانتا ہوں نا کہ میں باہر سے جیسا بھی ہوں اندر سے تو ٹھیک ہوں۔ مطلب یہ کہ ہم نے منہ موڑ لیا ہے اس شرف سے جس میں بیان ہے”بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے”ہاں یہ ہے آج کا انسان۔۔ حقیقت میں یہ ہی ہے۔۔ اپنے پسماندہ دماغ اور مزاج کی پرستش کرنے والا۔
ان باتوں میں الجھا ہوا کہ کوئ اسے سمجھے کہ وہ کیا ہے لیکن اپنے وجود میں میلوں گہری وسعتیں لیے ہوے۔۔۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ خود میں اپنے دل و دماغ سے الٹ معیار اپناے ہوے کیسے کوئ شخص یہ کہ سکتا ہے کہ اسے مکمل سمجھ لیا جاے۔۔۔حقیقت میں کوئ کسی کو ذرّہ برابر بھی سمجھ نہیں سکتا۔۔یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی وضاحتیں دیتا نظر اتا ہے یہ بولتے ہوے کہ اسے اپنی سمجھ ہر ایک سے زیادہ ہے۔۔لیکن جانتے ہو حقیقت کیا ہے۔۔۔کوئ بھی وجود اس دنیا میں خود کو اسانی سے سمجھ نہیں سکتا۔۔خود کی کھوج اتنی اسان ہوتی تو اشفاق احمد یہ سوال پوچھتے نظر نہ آتے کی کہ””کبھی مٹی کے ساتھ مٹی ہو کر دیکھا ہے؟؟ وقت گزارا ہے؟ اپنے وجود کے ساتھ اپنی روح کے ساتھ ۔۔جو اس قدر خود کی وضاحتیں کرتے ہو کیا واقعی حق دار ہو اسکے؟”اقبال ایک صوفی صفت انسان ہوتے ہوے بھی اپنی جوانی میں خود سے لڑتے اور خود کو پرکھتے نظر اتے ہیں۔۔کہتے ہیں کہ
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحر خیالات کا پانی
مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں
کی اسکی جدائی میں بہت اشک فشانی
اقبال ہی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
علامہ محمد اقبال
Who am I ? | میں کون ہوں؟؟
میرا ماننا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اج ہر شخص یہ کہتا نظر اتا ہے کہ مجھے مجھ سے بہتر کوئی سمجھ نہیں سکتا۔ یا تو ہر شخص نے اقبال کی مانند 10 سال بے شناسوں کی دنیا میں رہتے ہوے، اپنی دنیا بسا کر خود پر عبور حاصل کر لیا ہے یا پھر اپنی تنہایوں میں اشفاق احمد کی طرح زمین پر پوری پوری رات بیٹھ کر اور جگہ جگہ کی خاک چھان کر خود کو پرکھ لیا ہے۔ ورنہ ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ اپ اپنی تنہایوں میں بے علمی کا تاج لیے اور رونقوں میں بے نظری کا کاسہ لیے، خود پر عبور حاصل کرتے نظر ا رہے ہوں۔۔
دوسرے شخص کا نظریہ اپنا ہی نظریہ کیوں معلوم ہوتا ہے؟ اب نظر دوڑاؤ زرا۔۔اپ اپنی ڈائری کےلیے وہ الفاظ ہی کیوں چنتے ہو جو اپ سے پہلے موجود کسی مصنف کی داستاں ہوتی ہے؟؟ اپ اپنے لیے اسی برینڈڈ چیز کا انتخاب کیوں کرتے ہو جو کچھ وقت پہلے اپ کے کسی دوست کا انتخاب ہوتا ہے؟ سب سے بڑی بات اپ موسیقی میں موجود ہر لفظ کو اپنی ذاتی زندگی کی کہانی کیوں سمجھتے ہو جو ہر اس دوسرے شخص کی بھی پسند ہوتا ہے جو اپ کے ارد گرد ہی موجود ہے۔میں نے اپنے ایک قریبی ساتھی کو کل یہ کہتے سنا کہ” مجھے مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا”میرے زہن نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ہاں واقعی ایک انسان کو اس سے زیادہ کوی دوسرا کیسے پہچان سکتا ہے بس فرق محض اتنا ہے کہ کوی خود کو جان کر بھی لا پتہ ہے اور کوی خود کو غلط راستے اور رویوں کی طرف الجھاے ہوے ہے۔اتنا ہی خود کو جانتے ہو تو یہ تنہایوں میں بے سکونی کیوں۔۔کیوں اتنا ظرف نہیں کہ اپنے دل اور دماغ کی لڑائ کو ختم کر سکو۔۔کیوں اتنا خالی پن ہے کہ نا سمجھ پاتے ہو غلط کیا ہے اور درست کیا۔۔۔تم ایک ہی ناؤ میں بیٹھے ایک ہی راہ کے مسافر ہو،خود کو جان لینا اتنا اسان ہوتا تو ہمارا دین یہ نہ کہتا کہ”اس قران میں بہت نشانیاں ہیں مگر انکے لیے جو سمجھ رکھتے ہیں” مطلب یہ کہ ہم کہیں نہ کہیں تو نا سمجھ ضرور ہیں جو ہمیں اشارتاً یہ بات سمجھای جا رہی ہے کہ قرانی نشانیوں کو بھی سمجھنے کے لیے خود کو سمجھنے کے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔
ہمیں ضرورت ہی اپنے معیار اور اپنی سوچ کوی پرکھ رکھنے کی۔ہمیں ضرورت ہے ہر اس علم کی جو ہمیں ہم سے شناسا کرواے اصل میں ہمیں ضرورت ہے”خود کی”…چلو ایک عہد کرتے ہیں کہ اج ہی، ابھی ہی، اس سوچ کا ایک گھرخود مین تعمیر کریں جو ہمیں بتاے کہ اخر کیوں ہمیں بنایا گیا ہے۔۔۔مختصراً یہ کہ اقبال کی کہی بات پر نظر ثانی کریں جو کہتے ہیں کہ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن۔۔۔
علامہ محمد اقبال
Who am I ? | میں کون ہوں؟؟
Amber fatima (writer)In this race of life we have lost our identity.