- Shows the typical attitude of people towards the women
- This article is about the women behaviors in society.
- Women's are the future of this society.
(We are Women — میں عورت ہوں۔۔)-پاکستان بہت سی ایسی رسومات کا گڑہ ہے جو کہ غیر انسانی اور غیر مذہبی ہیں۔رسمیں جو ہم نے خود اپنے لیے بنائی ہیں۔ اپنے زہین ترین زہنوں سے جو کہ صرف خود غرضی پر یقین رکھتے ہیں۔ پھر وہ ونی ہو کاروکاری ہو وٹا سٹہ ہو یا جائیداد میں بیٹیوں کو حق نہ دینے کی ظالم رسومات ہوں۔ ہم نے ہر چیز اپنے معاشرے کی عورت پر اسکو کم تر اور مرد کو برتر ہونے کے احساس کے ساتھ اپنا حق سمجھ کر مسلط کی کے۔اس میں ایک چیز جس پر لوگ بہت کم بات کرتے ہیں یایہ کہہ لیں کہ بات کرنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ہم پہ توحین کا کوئی فتویٰ نہ لگا دیا جائے وہ ہے ہمارے معاشرے میں عورت کی قرآن سے زبردستی شادی جو کہ عام طور پر حق بخشش کے نام سے جانی جاتی ہے۔ حق بخشش مطلب شادی کے حق کو بخش دینا۔ اور ساری زندگی کے لیے مکمل تنہائی اختیار کر لینا۔ جو کہ سرا سر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
اسکی کئی مثالیں آپکو اپنے ارد گرد بلکہ اپنے ہی خاندان میں مل جائیں گی بس زرا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ایک ایسا حق جسکے لیے ہمارے معاشرے کی عورت ساری زندگی سنتے اور سوچتے گزار دیتی ہے وہ حق قرآن کی بیویاں “نعوذباللہ” بننے پر مجبور کر کہ ان سے لے لیا جاتا ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ یہ بہت سیدھی سی بات ہے جائداد کا بٹوارہ یعنی یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ بیٹیوں کو انکا حصہ نہ دینا پڑے اور گھر کی چیز گھر میں ہی رہ جائے خواہ اسکے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک نہایت ہی ناجائز اور غیر انسانی فعل کا قرآن پاک سے ملانا ہی اپنے آپ میں بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ پیسے کی خاطر جہالت کی ساری حدیں پار کر جانا اپنے آپ میں زہنی پسماندگی اور درندگی کی ایک بد ترین مثال ہے۔ پاکستان پریس انٹرنیشنل اور یواین انفارمیشن سیل کے رپورٹ کردہ ایک ایسے ہی واقعے کا زکر کرنا چاہوں گی جو کہ 9 سال پہلے سندھ میں پیش آیا۔ زبیدہ علی ایک 25 سالہ سندھی لڑکی جسکو باقاعدہ طور پر دلہن بنا کر اس رسم کی پیروی کی گئی جہاں ایک شادی میں ہونے والی تمام رسومات اور تقریبات تھیں مگر دلہا موجود نہیں تھا۔ کوئی ان لڑکیوں کا درد بھی سمجھے جو اس سب سے گزر کر زندگی کی تاریکیوں اور اپنوں کے ظلم کا شکار ہو جاتی ہیں۔
We are Women — میں عورت ہوں۔۔
یہ عام طور پر تب کیا جاتا ہے جب لڑکی کے لیےاپنے خاندان یا برادری میں کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا اور خاندان سے باہر شادی کرنا بے عزتی کا باعث سمجھا جاتا ہے جو کہ اپنے آپ میں اس معاشرے کی اخلاقی تباہی کی ایک اور مثال ہے۔ حق بخشش کی رسم کا شکار ہونے والی عورت زندگی بھر کبھی شادی نہیں کر سکتی، گھر سے باہر نہیں جا سکتی ،کسی سے مل نہیں سکتی ، سیر و تفریح نہیں کر سکتی۔مختصر یہ کہ زندگی کہ سارے رنگ اس سے چھین لیے جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ رسم جنوبی پنجاب اور خاص طور پر اندرون سندھ کے سید گھرانوں میں دیکھنے میں آتی ہے جہاں جاگیر دارانہ نظام اور پیری مریدی جیسے نظاموں نے اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں لیکن یہ چیز بہت سے دوسرے علاقوں میں بھی موجود ہے۔
یاد رہے کہ اس معاشرے کو اس حد تک لانے میں خود عورت کا کردار بھی ہے۔
بحثیت ماں، بہن ، بیوی یا بیٹی دوسری عورت کو نیچا دکھاںے میں ہم یہ بھول گئے کہ یہ سب ہمارے ہی حقوق غصب کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے بہت ڈے قوانین بنائے گئے ہیں جنکے مطابق ایسے کسی بھی کام کو کرنے کی صورت میں سات سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن کوئی بھی ایسے کیس درج کروانے کی زحمت نہیں کرتا اور اسکی وجہ سے ان قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس سلسلے میں علماء کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن آجکل علماء بھی اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرتے نظر نہیں آتے بلکہ بہت سے مولوی حضرات اس رسم کے حوالے سے وضاحتیں دیتے نظر آئیں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک کنواری لڑکی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے باپ نے میری ناپسندیدگی کے باوجود میرا نکاح کر دیا ہے، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا کہ اسے منظور کر لے یا رد کر دے۔
اسلام نے بہت واضح انداز میں قرآن پاک میں عورت کو پسند کی شادی کا حق دیا ہے مگر پر ابھی یہ طے ہونا باقی ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس حق کو ملنے تک اور کتنی کلیوں نے اس درندگی کی بھینٹ چڑھنا ہے کہنے کو بہت کچھ ہے لکھنے کو بہت کچھ ہے بتانے کو لا تعداد ان کہی داستانیں ہیں کہاں سے شروع کریں کہ دل اس ظلم پر نوحا کناں ہے اور انگلیاں فگار ہیں کوئی بتائے کہ ہم بتائیں کیا۔۔۔۔؟؟؟
تقاضہ جزا صدیوں کی خدمت کا نہیں ہوا کی بیٹی کو
Ghazal
بس اسکی التجاء ہےمنافق نارے بازوں سے
جو حق تفویض ہیں روز ازل سے اسے وہی تسلیم کر لو تم
خدا کے نام پر جو عہد باندھے ہیں وفا کر دو
جو حق واجب ہیں تم پر صرف اتنے ہی ادا کر دو
We are Women — میں عورت ہوں۔۔
Wajiha Chishti (Writer)Urdu Article | Untold Stories | about Women power.