# TrendingAll About Islam — انسان اور اسلام

The Light of Iman | مصطفی (ﷺ) جان رحمت

The story of a Ghazi.

Untold Highlights
  • Story of a Ghazi.
  • We need such brave men.
  • Such brave Ghazis are defenders of the religion of Islam.

(The Light of Iman | مصطفی (ﷺ) جان رحمت)-تیرے آگے یوں ہیں دبے،لچے فصحا عرب کے بڑے بڑےکوئی جانے منہ میں زباں نہیں ،نہیں بلکہ جسم میں جان نہیںامام احمد رضا خانحضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر پہ “خود” آہنی ٹوپی پہن رکھی تھی ۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی گستاخ رسول “ابن خطل” کعبے کے پردوں سے چمٹا ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اسے قتل کر دو!(مسلم شریف جلد دوم)

آج اور آئندہ کئیں روز تک ،آپ کی سماعت کئیں چہ مگوئیاں گزار گوش کرے گی۔۔ لوگ مجمع لگا کہ مباحثہ کریں گے۔۔ آپ اور میں اپنے ابسار گناہ گار ملک کے چند “امن پسند” جاہلوں کو یہ گفتگو کرتے ملاحظہ کریں گے کہ “قتل کرنا تو تھیک نہیں ، آپکی تمام دلیلیں بجا مگر اس طرح خون خرابے کا بازار گرم کرنا تو مجادلے کا باعث بنتا ہے ، گستاخی کرکہ اس نے بڑا کیا مگر سزا دینے والے ہم کون ٹہرے” انہیں ان کے گریبانوں سے تھام کہ باور کرایا جائے کہ ہم وہی امت ہیں جن کے لیے رات کی سیاہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نگاہ مبارک سے گوہر نایاب لٹائے ۔۔۔انہیں چوک کے وسط میں لے جاکہ دریافت کیا جائے کہ اپنے والد کے خلاف بازیبہ الفاظ سننا سہار کرتے ہو یقیناً نہیں تو ایک مسلمان کے روبرو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے متعلق سوال دراز کیے جائیں کہ جن کو ماں باپ ،اولاد اور دنیا کے تمام اشخاص سے محبوب تر جاننے کا حکم ہے تو میں استفسار کرتی ہوں کہ یہ کس حال میں ممکن ہے کہ وہ زباں پہ قفل ڈالے رہے ، وہ ہلاک نہ ہوجائے گع خاموش رہنے کی جرت کرے ؟ ، منافقین میں شمار نہ کیا جائے گر چپ۔سادھ لے تو؟ ۔۔۔آئیں تاریخ کے ان سنہری اوراق کی ورق گردانی کرتے ہیں جنہیں شاید ایسے ہی کسی صورت حال کے پس از ہم جانچنے کی ابتدا کرتے ہیں ۔ہندوستان کا راجپال نامی ایک مصنف ایک کتاب قلم بند کرنے میں کامران رہتا ہے جس کا اسم نعوذوبللہ ” رنگیلا رسول” رکھا جاتا ہے ۔ ہندوستان کے مومنین آگ ببولا ہوتے ہیں ، دو بار اس ذلیل پہ نارحانک حملے کیے جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک آپہنچتی ہے کہ سختنگرنی کے ماتحت اسے ایک مقام سے دوسرے تلک رسائی دلوائی جاتی ہے۔۔۳۱ مارچ یا ۱ اپریل کے مبارک روز کو غالباً ایک جلسہ منعقد قرار پاتا ہے ۔۔۔ اور یہ تغیر زیست الفاظ ادا کیے جاتے ہیں ” جاگو مسلمانوں جاگو ، بدبخت راجپال واجب القتل ہے ، ناموس رسالت کی خاطر اپنی جانیں قربان کردو” یک یک حرف اس مرد مجاہد کے قلب کو دولت ایمانی سے منور کردیتا ہے جسے دنیا غازی شہید الم الدین کے نام سے یاد کرتی ہے ۔۔۔ بس پھر انار کلی بازار سے چاکو خریدہ جاتا ہے اور راجپال کو واصل جہنم کیا جاتا ہے۔۔۔ جی ہاں وہی غازی الم الدین جنہیں لہد میں اتارتے وقت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ یہ سرگوشی کر آتے ہیں کہ ” غازی تیری وصیت کو ہم نے پر کیا ، تجھ سے جو وعدہ کیا تھا وہ اقبال نے پورا کردیا ، اب اقبال سے ایک وعدہ کرو اور وہ بھی پورا کرنا جب لہد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو اقبال کا سلام کہنا”… بلاشبہ غازی الم الدین شہید حقیقی فلاح پانے کی خاطر منتخب کیے گئے تھے۔

 

The Light of Iman | مصطفی (ﷺ) جان رحمت

پھر معمہ دو ہزار گیارہ میں سر اٹھاتا ہے ۔۔۔اس دوران بھی کہیں پوشیدہ جسارتیں مسلسل پیش آتی رہتی ہیں جنہیں کبھی میڈیا کی دستگیری سے تو کبھی بیرون ممالک کی پھینکی گئی ہڈیوں کے تعاون سے زیر کردیا جاتا ہے۔۔۔دو ہزار گیارہ میں سلمان تاثیر ، جی وہی گورنر پنجاب ، اقلیتوں کے حقوق یا یہ عرض کروں کہ گستاخوں کے حقوق کی خاطر آواز اٹھانے ، ناموس رسالت کے قانون کو متنازع قرار دینے کا حامل وہ شخص اپنے ہی محافظ کہ ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے جسے دنیا غازی ممتاز قادری کے اسم سے شناخت کرتی ہے۔۔۔وہ مرد مجاہد ستائس گولیاں فقط پانچ سیکنڈ میں چلاتا اس بدبخت و ذلیل کا کام تمام کردیتا ہے ۔۔۔ دیگر محافظ اس پہ بندوق تانتے ہیں تو وہ گرفتاری کی چاہ کرتا ہے ، کوٹ میں کیس درج کیا جاتا ہے مگر وکلاء کی جماعت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی ذی روح اس کے خلاف جہاد کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔۔۔پھر بڑے کٹھن مرحلے سے گزر کہ ایک وکیل کو مستعد کیا جاتا ہے ۔۔۔ جوکہ اس قدر “بہادر و بے باک ” ہے کہ اب بھی اپنی رہائش گاہ میں دو مجاہدوں سمیت رہائش پذیر ہے۔۔۔۔وقت مزید سرکتا ہے اور غازی علم الدین ہی کی مانند بر صغیر کا قانون رائج نہ ہوتے ہوئے بھی اسے اپنے رب کے قریں بھیج دیا جاتا ہے ۔لوگ روتے ہیں, بلکتے ہیں ۔با عزت و با احترام علماء اس بادشاہ کے تابوت کو چھونے کی خاطر لپک رہے تھے ، صدائیں بلند ہورہیں تھیں “غازی بازی لے گیا ” ، جنازے میں لاکھوں کی تعداد تھی اشخاص کی اگر ان تمام معاملات کو پوشیدہ رکھا گیا بوجہ اس جہاں کی عدالت تھی ،مگر وہاں کی وہ عدالت جو برحق ہے ، جہاں کچھ پوشیدہ نہیں کیا جائے گا ، جہاں کچھ فراموش نہیں کیا جائے گا ۔۔اس روز ثابت ہوگا کہ جیتا کون ،ہارا کون۔۔ برادر غازی ممتاز کہتے ہیں جس کا لب لباب ہے۔

“آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ غازی نے کیا کام کیا ہے ،جو لوگ پہلے ہم سے ہاتھ ملانے سے کتراتے تھے اب وہ بوسہ لینے اور دینے کے در پہ ہیں ،ہم بس خدا کہ شکر گزار ہیں کہ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر ہمارے خاندان کو منتخب کیا”۔غازی کے رخ کی طمانیت ، تسکین ملاحظہ کرنے والوں کو خیرہ کررہی تھی۔وہ اپنے رب سے ملاقات کی خاطر بے چین تھے ۔۔۔ان دونوں مجاہدین کی رہائی ممکن تھی گر یہ اپنی بات سے مقر جاتے مگر وہ سر اٹھا کہ فخر سے اعتراف فعل کیا کرتے تھے ۔اور کیونکر نہ کرتے یہ انتخاب ان کی خاطر باعث شرف تھا ، ان کی قسمت جاگ اٹھی تھی ، مقصد حیات پورا ہوا چاہتا تھا۔۲۵ اپریل دو ہزار اٹھارہ ، احمدیہ فرقے سے تعلق رکھنے والے اور بذات خود نبوت کا دعوہ کرنے والے شخص طاہر نسیم کے خلاف کیس دائر کیا گیا۔ دو برس تلک لگاتار مقدمے کو رواں رکھا گیا ، اسے طویل سے طویل تر کیا جارہا تھا ۔طاہر ہر پیشی میں اپنے دعوؤں کا اعتراف کرتا مگر پھر بھی تاریخ اگے بڑھادی جاتی۔شاید اسے بھی پچھلوں ہی کی طرح رہا کردیتے کا ارادہ رکھا جاتا تھا۔بالآخر ۲۹ جولائی دو ہزار بیس کے مبارک دن ایک پیشی مقرر پائی اور پھر ایک مقرر کردہ بندہ اللہ کے حکم سے حاضر ہوا ، اس بدکار نے پھر اعتراف دعوہ کیا اور اسے واصل جہنم کردیا گیا۔غازی محمد خالد نامی اس نوجوان لڑکے کا انتخاب کیا گیا تھا۔اس کے رخ سے جھلکتی طمانیت قابل دید تھی۔اسے بھی ہتھکڑی لگا دی گئی۔اس مرد مجاہد کے بیان کے متعلق گزار گوش کیا تو تن من جھوم اٹھا ۔وہ کہتے ہیں کہ مجھے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور انہوں نے حکم دیا کہ اسے قتل کردو ، لوگ غالبا اس بیان پہ شبہ ظاہر کرکہ اپنی آقبت تباہ کریں مگر میں شک کا کوئی شائبہ اس میں ملا کہ یہ گناہ عظیم سر لینے سے قاصر ہوں۔عین ممکن ہے کہ یہ تلخ حقیقت بھی منظر عام پہ آئے کہ اوپری طاقتوں کے باعث انہیں بھی رہا نہ کیا جائے۔۔۔گر ایسا نا سہار واقعہ پھر پیش آیا تو وہ تو فتح یاب ہونگے مگر ہم پھر ہار جائینگے ،جیسی غازی علم الدین کے وقت ہارے تھے ، جیسے غازی ممتاز کہ وقت شکست سے ہم کنار ہوئے تھے ۔۔۔اور خوف تو یہ ہے کہ یہ شکست دنیاوی ہے ہی نہیں ہم اللہ کے حضور اس کے رسول کے حضور شکست پا ہونگے۔لرز جائیے کہ لرزنے کا مقام ہے۔خواب خرگوش سے جاگئے کہ اب جاگ اٹھنے کا مقام ہے۔

یاد رکھئے گا ابن خطل جو گستاخ رسول تھا اسے قتل کرنے کا حکم وہاں دیا گیا جہاں جوں مارنے تک کی بھی ممانعت ہے۔یعنی حدود حرم میں تو کیا یہ کہتے ہوئے ہماری آواز لحظہ بھر کو نہیں کانپتی کہ قتل کیوں کیا۔گستاخ رسول واجب القتل ہے مگر افسوس یہ جرات ہر کوئی نہیں کرتا ،اس مبارک فعل کی خاطر منتخب کیا جاتا ہے۔کاش ہم کھوکھلے عشق مصطفیٰ کے دعویداروں کی غیرت بھی جاگ اٹھے اور زور و شور سے پکارا جائے۔۔

بتلادو گستاخ نبی کو ،غیرت مسلم زندہ ہے

ان پہ مر مٹنے کا جذبہ کل بھی تھا اور آج بھی ہے

The Light of Iman | مصطفی (ﷺ) جان رحمت

Ayesha Siddique (Writer)

Urdu Article | Untold Stories | about the ghazi Muhammad Khalid.

Untold Stories

We are an open source content providers for both Urdu and English readers and writers. We provide opportunity and a startup to those who inspires to become good writers. *Disclaimer: The contents of UntoldStoriess are the property of its contributors. They Share their views and opinion and have the right to withdraw their article at any time they deem necessary. US is not liable to pay for any content it is here to provide platform for free contribution and sharing with the world. Content creator discretion is recommended. Thankyou*

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button

Adblock Detected

Untold Storiess is a free to use platform where readers and writers alike can visit, share and contribute. We request you to kindly remove ad blocker to further access our website.