- our desire, as Muslims.
- We expect, and Allah bless.
- say AlhamDuLilah for everything wjat you have.
(The Desire of Momin | تڑپ)-ابھی گزشتہ سال ہی تو ہوکہ آئی ہوں وہاں سے۔پھر کیسی تڑپ ہے یہ۔یہ کیسی آتش ہے،یہ کیسا فراق ہے جس میں جھلس رہی ہوں میں۔۔اور تعجب پتا ہے کس بات کا ہے۔یہ ہجر مجھے تکلیف نہیں سکون دیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے اگر اس ہجر کہ بغیر اب ایک پل بھی گزرا تو زیست کا محور ہی تمام ہوجائے گا۔مگر کوئی سرزمین اس قدر محویت کس طرح بخش سکتی ہے۔۔ہر شہر ،ہر گاؤں ،ہر ملک بلاشبہ اپنے اندر ایک مقناطیسیت لیے ہوئے ہوتا ہے۔مگر اس کا چپا چپا دیکھ لینے بعد تو وہ گلی کونچے پرانے سے لگتے رہتے ہیں نا،نہ ہی خوشبو میں وہ پہلے سی تازگی رہتی ہے۔سب کچھ ماضی سے منسلک سا لگتا ہے۔ایک بار ،دو بار ،تین بار اور پھر بھی۔تمام اشتیاق ختم۔مگر یہ کیسی جاذب جگہ ہے جہاں سو بار جانا بھی نا کافی ہوتا ہے۔جہاں ہر بار ایک نئی سی خوشبو آپکی ہی طاق لگائے بیٹھی ہوتی ہے۔جہاں بارہاں دیکھی گئی گلیاں بھی نئی سی معلوم ہوتیں ہیں۔اتنی وسعت کا حامل کیوں ہے آخر یثرب ۔۔بلکہ نہیں۔وسعت کے حامل تو وہ واقعات ہیں جو اس شہر سے منسلک ہیں۔
The Desire of Momin | تڑپ
مروت ،تعظیم ،ادب کا مستحق یثرب نہیں بلکہ وہ شاہ ہے جو اپنی تشریف آوری سے اسے یثرب سے مدینہ بنا گیا۔وہ گلیاں قابل ذکر بھی نہ ہوتیں گر ان پاک قدموں کا گزر نہ ہوتا۔ان کا مہکنا کسی اہمیت کا حامل نہ ہوتا اگر وہ پاکیزہ معطر پسینے کی خوشبو نہ ہوتی۔اور جو بات حیرت زدہ کردیتی ہے وہ یہ کہ وہاں کوئی بذات خود ،اپنی چاہ سے اپنی مرضی سے قدم رنجہ ہو ہی نہیں سکتا۔وہاں بلایا جاتا ہے۔وہاں مقیم تاجدار کائنات ،شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم جسے چاہتے ہیں یاد فرماتے ہیں۔بھولے تو امت کو وہ کبھی بھی نہیں۔بس ایک خاص کرم ہوتا ہے۔مجھ پہ بھی ہوا تھا گزشتہ سال۔ پہلی بار گھر سے چار افراد کو یہ سعادت نصیب ہوئی تھی اور ان چار سعادت مندوں میں میرا نام بھی شامل تھا۔ایک بات جس پہ میں پچھلے پانچ ماہ سے نادم ہوب وہ جانتے ہیں کیا ہے۔مجھے اشخاص کا مدینے کی خاطر رونا ،تڑپنا سمجھ نہ آتا تھا۔جو شخص ابھی پچھلے سال ہی ہو آیا وہ پھر سے اس سال ٹکٹ لیے تیار کیوں بیٹھا ہوتا تھا ۔میں یہ سمجھنے سے قاصر رہی۔۔۔اور جانتے ہیں کب تک ابھی پانچ چھ ماہ پہلے تک۔رخصت مدینہ کی گھڑیاں کافی تکلیف دہ تھیں۔خوب اشک آفشانی کی میری دیدوں نے۔ایک ایک گلی ،ایک ایک کونچے کو بارہاں دیکھ کہ ازبر کرنے کی کوشش کی۔دعا بھی مانگی دوبارہ بلاوے کی مگر روح میں ایک سکون سا اتر چکا تھا کہ کم از کم میں وہ پاک روزہ انہیں گناہگار نگاہوں سے دیکھ تو چکی ہوں۔اور پاکستان پہنچ کہ سب تھیک ہوگیا میں اس پاک سفر کو بھولتی گئی۔کم از کم مجھے تو ایسا ہی معلوم ہوتا تھا۔۔پھر دفعتاً وہ ماہ مبارک قریب آنے لگے کہ جس میں مجھ سیاہ کار کو وہاں طلب کیا گیا تھا۔ یک لخت دل کی کیفیت بدلی۔وہاں ازبر کی گئی ایک ایک یاد نگاہوں کے سامنے گھومنے لگی،وہاں کیا گیا ایک ایک کرم ذہن میں تازہ ہوتا رہا۔میرا من چاہنے لگا چیخوں،لوگوں جو جھنجھوروں ۔کہوں خدارا مجھے مدینے لے جائیں اب کبھی نہیں آؤں گی ۔یہ کیسی تڑپ ہے ،یہ کیسا ہجر ہے۔لوگ کہتے ہیں وقت کے ساتھ زخم بھر ہی جاتا ہے۔درد ختم ہو ہی جاتا ہے۔مگر یہ کیسا عشق ہے کہ جس کا درد وقت کے ہمراہ تازہ ہوتا جارہا ہے۔یہ کیسا زخم ہے کی تھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔پھر غور کرتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ میں تو سعی کررہی ہوں کہ اس زخم سے خون رسنے لگے۔میں تو اسی جدو جہد میں مبتلا ہوں کہ اس فراق سے کب میری حالت غیر ہو اور ترس کھا کر ہی مجھے در یار پہ لے جایا جائے۔بلکہ میں کیا یہ تو ہر عاشق ایک منٹ مجھے تصیح کونے دیں یہ تو ہر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی منطق ہےامام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا وہ شعر بے ساختہ ہی لبوں سے نکلتا ہے۔
جان ہے عشق مصطفیٰ
روز فضوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزہ
ناز دوا اٹھائے کیوں۔۔
نا جانے کیوں مگر یقین سا ہوچلا ہے اب کہ اگر درد اسی نوعیت کا رہا تو غمزدوں کے غمخوار صلی اللہ علیہ وسلم ضرور کرم کر دیں گے۔۔بس اس درد کی نوعیت کسی صورت گھٹنی نہیں چاہیے اور یہی تو دراصل عاشق کا شیوہ ہے۔۔
یہ گمان تھا کئیں سال سے
یہ یقین ہے کئیں روز سے
میرے دل سے گنبد سبز کا
یہ معاملہ کوئی اور ہے۔۔۔
The Desire of Momin | تڑپ
Ayesha Siddique
Writer
Urdu Article | Untold Stories | about the desire of momin.