- “Technology is best when it brings people together.
- Once a new technology rolls over you, if you're not part of the steamroller, you're part of the road.
- It has become appallingly obvious that our technology has exceeded our humanity.
(Slaves of Technology | موج مضطر ہی اُسے زنجیرِ پا ہو جائے گی)
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دورِ قدیم میں مصری تہذیب نے دنیا بھر کےمعاشروں کو متاثر کیا۔ اب سے تقریباً اڑھائی ہزار برس قبل یونان کے مفکرین اور فاتحین کی بدولت دنیا پر یونانی تہذیب کا غلبہ ہوا ۔ چودہ سو برس قبل جب مسلمانوں نے دنیا کے خوش حال ترین حصے پر غلبہ پایا تو عرب اور عجم کے مختلف معاشروں کے ملاپ سے اسلامی تہذیب نے جنم لیا جو بارہ سو برس تک دنیا کی غالب تہذیب رہی ۔ ان مختلف ادوار میں رونما ہونے والی اہم تبدیلیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ غالب قوتیں مغلوب قوتوں پر زندگی کے تمام میدانوں میں اثر انداذ ہوئیں ۔ اقوام کے رسم رواج ، ادب ، لباس ، ، رہن سہن کے انداز اور تہذیبی اقدار غرض زندگی کا ہر شعبہ غالب قوم سےمتاثر ہوا۔
مختلف تحریکوں کا آغاز ہو، ایک تحریک
“Renaissance”
Slaves of Technology | موج مضطر ہی اُسے زنجیرِ پا ہو جائے گی
کے نتیجے میں یورپ میں سائنسی انقلاب برپا ہوا ۔اہلِ مغرب نے چند ہی صدیوں میں اپنی سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت پوری دنیا پر غلبہ پا لیا ۔اس غلبے کے بعد دنیا کا نقشہ بدل کر رہ گیا ، انسانی زندگی کا ڈھانچہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا ۔انسان کے جسمانی اعضا سے مشقت لینے کی بجائے مشینی پُرزوں پر انحصار ہونے لگا ۔ ارتقاء انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے ۔ ارتقاء کے بغیر قومیں مفلوج ہو جاتی ہیں ، جو وقت کے تقاضوں کو پورا نھیں کرتا وقت اسے روند ڈالتا ہے ۔ مگر جو قومیں ارتقا کے نام پر اپنی اقدار کا جنازہ نکالتی ہیں ان کا کوئی حامی و ناصر نھیں ہوتا ۔ ایک وقت آتا ہے کہ انسان اپنی قدیم روایات کی طرف پلٹنا چاہتا ہے اور “ارتقاء” اس کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ شاعرِ مشرق ڈاکڑ علامہ محمد اقبال فرما گئے ہیں کہ
دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مُضطر ہی اُسے زنجیرِ پا ہو جائے گی
ہم نے سائنسی انقلاب کی بدولت دنوں کا سفر منٹوں میں تو ممکن بنایا ، ہم نے پہاڑوں کا سینہ تو چاک کیا ، ہم نے میدانوں کو فتح تو کیا ہے ، ہم وہاں بھی جا پہنچے ہیں جہاں ہوا ،پانی اور روشنی جیسے لوازمات کا تصور ممکن نھیں ، ہم نے ستاروں پہ کمندیں تو ڈالیں ہیں مگر کیا ہم نے اپنی اُن روایات کو زندہ رکھا جن میں ایک مکمل زندگی بستی تھی ؟
کیا ہماری نوجوان نسل ائیر کنڈیشنر کمروں میں سو کر یہ جان سکتی ہے کہ کشادہ صحنوں میں سو کر بسر کی ہوئی راتوں کا لطف کیا ہوتا ہے ؟
کیا نوجوان نسل جان پائے گی کہ تارے گنتے اور چاند کی قُربت میں سونا کیا ہوتا ہے ؟ یقیناً ان سوالات کا جواب نھیں میں ملے گا ۔ لہلہاتے کھیت کس طرح فیکڑیوں کارخانوں کے دھوئیں کی نظر ہو گئے ہم یہ کیوں کر سوچیں گے کیوں کہ ہمارے نزدیک یہ خدا کے کام ہیں اور شاعر بھی کہ گیا ہے کہ
ع۔ خدا سر سبز رکھے اس چمن کو مہرباں ہو کر
مگر ہمیں یہ جان لینا چاہیئے کہ یہ خدا کے کام نھیں ہیں ہم خود اس کے ذمہ دار ہیں ۔ ہمیں خود اپنی اقدار کی پاس داری کرنا ہے جو میکانکی دور کی بھینٹ چڑھ گئیں ، یقیناً یہ تب ہی ممکن ہو پائے گا جب ہم اپنے ماضی پر اک نگاہ ڈالیں گے۔
Slaves of Technology | موج مضطر ہی اُسے زنجیرِ پا ہو جائے گی
Burhan Hassan (Writer)Urdu Article | untold stories | about slaves of technology.