Disabled Society | اپاہج سماج

Reality Behind the Face | پلاسٹک کے لوگ

Reality behind this world.

Untold Highlights
  • If you’re gonna be two-faced at least make one of them pretty.
  • Don’t trip over your own words and fall into hypocrisy.
  • I really hate two faced people, it’s hard to decide which face to slap first.

(Reality Behind the Face | پلاسٹک کے لوگ)-مال و دولت, سونے اور پیسے سے لدے ہوے لیکن بے حد غربت اور مفلسی کے مارے ہوئے کیونکہ ان سب سے ہم نے اپنے صندوق تو بھرے ہوئے ہیں لیکن احساس سے بالکل خالی ہیں ہم لوگ ہیں .کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ قرآن جنہیں اندھے , گونگے, بحرے کہتا ہے وہ ہم ہی تو ہیں. کسی کو سننے کا ظرف نہیں ہے ہم میں,ہم بحرے ہی تو ہیں , کسی کی آنکھوں میں چھپے آنسو ہم نہیں دیکھ پاتے , ہم اندھے ہی تو ہیں, کسی کو دو بول تسلی کے نہیں کہہ سکتے کسی کوکچھ اچھا کرنے پر داد نہیں دے سکتے, ہم کونگے ہی تو ہیں.ہم اس پلاسٹک کے دور میں جی رہے ہیں جہاں سب کچھ مصنوعی پلاسٹک کے جیسا ہے.۔

ہم سے پچھلی جنریشن ایک ایسے دور میں جی ہے جب میاں بیوی کا جھگڑا ہو جاتا تھا تو گھر کے بڑے سلجھا دیا کرتے , اب کسی کے معاملات میں کوئی دخل نہیں دیتا.. جب بچے غلطیاں کرتے تھے تو بڑے سمجھایا کرتے تھے..پھر گاؤں کے کچھ بابے اور دادیاں یعنی بزرگ ہوا کرتے تھے جن کے پاس بہت سے مسئلوں اور باتوں کے جواب ہوا کرتے تھے اور کبھی تو بغیر سوال پوچھے ہی الجھنے ختم کر دیا کرتے تھے لیکن آج کے اس پلاسٹک کے دور میں ابھی بچہ 18 سال کا بھی نہیں ہوتا اور اس سے کوئی سوال کر لیا جائے تو کہتا ہے یہ مرا ذاتی مامعلہ ہے آپ دخل نہ دیں, والدین اولاد سے اتنی دور ہیں کہ انکو اس دن پتہ چلتا ہے کہ انکے بچے کے ساتھ کوئی مسلہ تھا جب اسکی لاش خودکشی کے بعد بند کمرے میں پنکھے سے جھولتی ہوئی ملتی ہے.گھر والے تو الگ اگر دوستوں کی بات کی جائے تو وہ بھی سب کے سب پلاسٹک کے ہوں جیسے. معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کسی سے بھی اپنے مسلے بیان نہیں کر رہا , اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہا اور اندر ہی اندر انکو بہت بڑا کئے جا رہا ہے.. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسکے پاس کوئی رہنمائی نہیں پہنچتی۔اور وہ کسی سے اظہار اس لئے نہیں کر پاتا کیونکہ ان پلاسٹک کے لوگوں میں سے کوئی اسے امید دلانے والا نہیں ہوتا کوئی سننے والا نہیں ہوتا یہ پلاسٹک کے لوگ صرف اور صرف دل دکھانا جانتے ہیں وہ بھی بے حسی سے.۔

Reality Behind the Face | پلاسٹک کے لوگ

اور اگر کوئی رو رہا ہو تو دیکھ کر کہیں گے کہ رو لینے دو اسکو.اگر کوئی اپنا درد شیر کرنے لگے تو سب مزاق بنانے لگتے ہیں او دکھی بس کر, او فلاسفی شروع ہونے لگی.تمہارا رونا دھونا ہم نہیں سن سکتے.سچ تو یہ ہے کہ ہم میں سننے کا ظرف ہی نہیں۔اور کہنے والے کا ایک جملا بھی مکمل نہیں ہوتا.وہ کر ہی نہیں پاتا ..پھر وہ انسان اپنی چیخوں کو اپنے اندر دفن کرنا سیکھ لیتا ہے اور اک جھوٹی ہنسی کی چادر اورڑھ لیتا ہے. پھر وہ دنیا کو یہ دکھاتا پھرتا ہے لو میں خوش ہوں اور جیسے ہی اکیلا ہوتا ہے اسکے اندر چیخوں کا شور دن بدن بھڑنے لگتا ہے. یہاں تک کہ اک دن ہنستے کھیلتے شخص کی لاش کہیں سے ملتی ہے…وہ اندر ہی اندر گھٹتا چلا جاتا ہے اور کسے کو خبر بھی نہیں ہو پاتی.کیوں؟؟؟

کیونکہ ہم پلاسٹک کے ہو گئے ہیں ہم اندھے, بحرے اور گونگے ہو گئے ہیں اور معزرت کے سا تھ خود پلاسٹک کے ہونے کے بعد ہم نے اپنی یہ ذمہ داری نفسیاتی ڈاکٹر کو سونپ دی اور خود احساس کے جذبے سے عاری ہو کر بیٹھ گئے……. میرا ذاتی خیال ہے پیسے لے کر لوگوں کے درد سننے والا کیسے کسی اپنے سچے اور بے لوس محبت کرنے والے رشتے کا نعم الندل ہو سکتا ہے؟بڑے دکھ کی بات ہے کہ پلاسٹک کا یہ انسان اپنی ساری زندگی منافقت میں گزارتا ہے اک حقیقی مسکراہٹ تک سے ناواقف رہتا ہے. ہم میں سے کئی لوگوں کو دل سے ہنسے ہوئے سالہ سال گزر جاتے ہیں۔ بس اک بناوٹی دنیا میں سانس لے رہے ہیں اور انکو کوئی بھی یہ بتانے والا نہیں ہوتا کہکچھ نہیں ہوتا اداسی ظاہر کر دینے سے جب تم اداس ہو۔کوئی بات نہیں تم میرے کندھے پر سر رکھ کر رو سکتے ہو۔اگر تم خوش نہیں ہو تو دوسروں کو جھٹی خوشی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔تم اپنے دوستوں اور گھر والوں سے اپنا دکھ بانٹ سکتے ہو۔اگر آج تمہارے ساتھ برا ہو رہا ہے کسی بات کے لیے تو اک دن بہت اچھا بھی ہوگا ۔آج تمہاری روشنی مدھم ہے تو کل تم سورج کی طرح چمکو گے۔یہ سب چیزیں انسانی جزبات کا حصہ ہیں اور ہمیں اس میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔یہ لفظ وہ کبھی سن نہیں پاتا اور ایسے ہی دنیا سے چلا جاتا ہے۔

ایک خودکشی کے ذمہ دار جہاں بہت سے عوامل ہیں وہاں سب سے بڑی وجہ اپنے رشتوں سے, اپنے اصل اور اپنے رب سے دوری ہے.اگر ہم سب یہ پلاسٹک کا خول اتاردیں اپنے اردگرد لوگوں کا احساس کریں جوکہ ہمارے نبی کی تعلیم ہے تو یقیناً بہت سے لوگوں کی زندگیاں بچ سکتی ہیں۔

Reality Behind the Face | پلاسٹک کے لوگ

Zoha Altaf (writer)

Two-faced people are the ones who act like your best friend around you but are ready to back-stab you anytime.

Untold Stories

We are an open source content providers for both Urdu and English readers and writers. We provide opportunity and a startup to those who inspires to become good writers. *Disclaimer: The contents of UntoldStoriess are the property of its contributors. They Share their views and opinion and have the right to withdraw their article at any time they deem necessary. US is not liable to pay for any content it is here to provide platform for free contribution and sharing with the world. Content creator discretion is recommended. Thankyou*

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button

Adblock Detected

Untold Storiess is a free to use platform where readers and writers alike can visit, share and contribute. We request you to kindly remove ad blocker to further access our website.