جی لے چند پل کے وہ مر سکتا ہے
اسے کیوں لگا کے وہ کر سکتا ہے
جی لے چند پل کے وہ مر سکتا ہے
نہ لگتا تو، وہیں رہتا
پڑاتھاجہاں، پڑا رہتا
مگر اس کو سنبھلنا تھا
مایوسی کی ہواؤں کے تھپھیڑوں میں
بادلوں سی برستی آنکھوں کے بیچ سے گزر کر
دل کے بوجھل آسماں میں چھپے
امید کے سورج کو جگانا تھا
اسے کچھ کر دکھانا تھا
سر پر کھڑی موت کو ہرانا تھا
وہ کیوں مایوسی کے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا
رفتہ رفتہ خود تک پہنچتے آنسوؤں کے سیلاب کو
چپ چاپ کھڑے دیکھتا رہتا
وہ بچہ جس کی آنکھوں میں چمک تھی
وہ جو زندگی کےچند گھونٹوں کا پیاسہ تھا
نہ تھی عمر جس کی مرنے کی مگر یہ خوف
اسکی بیچاری ماں کی آنکھوں میں بے تحاشہ تھا
اس کے سوجھے نیلے ہونٹوں سے
لفظوں کا ادا ہونا
اس کے بنائے گئے گول سر سے
ریشمی بالوں کا جدا ہونا
ٹمٹاتے ہوئے ننھے چراغ کا
موجٖ بحر میں جلے رہنا
کیا بہت ضروری تھا
اس کا لا دوا ہونا
زندگی نہیں پر وہ خود چراغ تھا
جل جل کے کرب سے جسکا جینا محال تھا
وہ جینا چاہتا ہی کیوں تھا کے جب موت اسے
تمام تکلیفوں سے،ہر درد سے آزاد کر سکتی تھی
وینٹی لیٹر،ڈرپس،انجیکشنز، ٹیوبز
زندگی میں جکڑی اس قید سے آزاد کر سکتی تھی
اس قید سے جو اس کی ماں کی لئے شاید
چراغٖ آخرٖشب تھی،امید سحر تھی
سجدے میں سر ٹکائے گڑگڑاتے ہوئے
اس غریب ماں کی آخری دولت تھی
وہ کیسے خود کو اس قید سے آزاد کر سکتا تھا
اسنے اپنے گنجے سر پرجب
اپنی ماں کے ہاتھوں کا لمس محسوس کیا
اس کے گالوں سے لڑکھتے آنسوؤں کو
دھندلاتی نگاہوں سے گرتے دیکھا
اسے لگا کے وہ ہر جبل مایوسی کو
تن و تنہا بھی چل کر سر کر سکتا ہے
اسے کیوں لگا کے وہ کر سکتا ہے
جی لے چند پل کے وہ مر سکتا ہے
Maryam Javed
Poet / Writer (URDU)My First Urdu Poem.
Quote Index
Inspiration - 7.1
Understandability - 7.5
Biasness - 8.8
7.8
Impact Value
What is Your Opinion About this Quote/ Saying / Poem
Beautiful words Maryam. I just loved it