- Pakistani drama industry.
- Impact of dramas at our society.
- Media and Public.
(Pakistan’s Drama Industry | پاکستان ڈرامہ انڈسٹری)- پاکستان ڈرامہ انڈسٹری کی بنیاد 1969 میں رکھی گئی.آغاز کے بعد یہ انڈسٹری بتدریج ترقی پذیر رہی.سب سے پہلے نشر کیا جانے والا ڈرامہسیریل خدا کی بستی شوکت صدیقی کے ناول پر فلمایا گیا.بلاشبہ 70 اور 80 کی دہائیوں میںڈرامہ انڈسٹری کا دور عروج رہا.جسے بلامبالغہ انڈسٹری کا سنہرا دور کہا جا سکتا ہے.جرنل ضیاءالحق(مرحوم) نے میں ملک بھر میں اصلاحات کا نفاذ کیا تو شوبز انڈسٹری کیلئے بھیحدودوقیود مقرر کی گئی.ضیاء الحق کی وفات کےبعد گزرتے وقت کے ساتھ ترقی ہوئی تو جدت کو اپنانے کی دوڑ میں اخلاقیات اور روایات کو یکسر فراموش کیا جانے لگا جس سے معاشرے اور نسلِ نو پر پڑنے والے منفی اثرات اس زندانِ آہنی کیمانند ہیں جس سے فرار ممکن نہیں.۔
ڈرامہ انڈسٹری کا اصل مقصد افراِد معاشرہ کوتفریح فراہم کرنا ہوتا ہے.لیکن المیہ یہ ہے کہ آج کی ڈرامہ انڈسٹری معاشرے میں اخلاقی بگاڑ ، تنزلی اور پژمردگی کا سبب بن چکی ہے.ریٹنگ اور ایک دوسرے کوشکست فاش کرنے کی دوڑ میں عوامکے جذبات سے کھیلا جانے لگا ہے. کبھی ہیرو کی موت دیکھا کر ، کبھی عوام میں مقبول ہوجانےوالے کرداروں پر ظلم و ستم کی داستانیں رقم کرکے.ڈراموں میں دکھائے جانے والے کردار معاشرے کےعکاس ہوتے ہیں.افراِد معاشرہ ان کو اپنے اطراف میں تلاش کرتے ہیں اور ان کی تقلید کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
ڈراموں میں کردار نگاری کرتے ہوئے اس نقطہ کو مِد نظر رکھا جانا لازم ہے لیکن
توازن کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا.یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی کردار بیک وقت خوبیوں یا حامیوں کا حامل نہیں ہوسکتا.ہر انسان میں خوبیاں اور خامیاں دونوں پائیجاتی ہیں ڈرامائی کرداروں کو ان کا عکس ہوناچاہیے ۔ بہت سے سیریلز میں دکھائے جانے والےجانے والے کرداروں میں کچھ کو بہت مظلوم بناکر دکھایا جاتا ہے،جبکہ منفی کرداروں کو تمام ترخامیوں کا مسکن۔دونوں صورتوں میں توازن مقفود ہو جاتا ہے ایسی صورت میں یہ کردار
حقیقی معاشرے کےعکاس ہونے کا دعوٰی کرنے سےقاصر نظر آتے ہیں۔شوبز انڈسٹری کی بے راہ روی نے معاشرے کے جن عناصر کو پراگندہ کیا ہے ان میں خواتین کا کردارسِر فہرست ہے۔جسے مسخ کر دیا گیا ہے۔ کہنے کوسبھی جانتے ہیں عورت کا مقام کیا ہے۔ باعزت ،اعلی و ارفع ، محترم ،معزز ہستی۔ لیکن ہماری
Pakistan’s Drama Industry | پاکستان ڈرامہ انڈسٹری
ڈرامہ انڈسٹری اس کردار کی دھجیاں اڑانے پر مصر نظر آتی ہے ۔ خواتین کا جو کردار دکھایا جاتا ہے اسے حقیقی زندگی میں قبول کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔معاشرہ نہ ہی افراِد معاشرہ۔ غیر محرم افراد سے دوستی اور عشق وعاشقی کے جو قصےان سے منسوب کر کے پیش کیے جاتے ہیں حقیقی زندگی میں ان کے پاس پھٹکنے والی لڑکیاں عزت اور غیرت کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ فلموںڈراموں میں جن کو باکردار بنا کر پیش کیا جاتا ہےوہ بھی غیر شرعی دوستیوں اور پردے کی حدود سے کوسوں دور نظر آتی ہیں ہمارا اسلامی معاشرہ
اخلاقی زوال ، تنزلی اور پستی کے اس مقام پر ہے کہ اب اسلامی معاشرت ، اخلاقی حدود و قیوداور شریعت کے متعین کردہ قوانین کے بارے میں سوچنا بھی بعید از قیاس ہے۔ ہمارے میڈیا کااصول ہے کہ کسی کو تنگ نظر دکھانا مقصود ہو تو اسے ڈوپٹہ اوڑھا کر مذہب پرست بنا دیا جاتا ہے۔ اور جدت کے تقاضوں پر پورا اترتی خواتین کومذہب اور معقول شرعی لباس سے ایسے دور رکھا جاتا ہے جیسے دو مختلف سمتوں میں نکلتی ،کبھی نہ ملنے والی راہیں۔
ہم سب مذہِب اسلام کے نام پر حاصل شدہ ایک اسلامی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہمارا میڈیا ، ہماریانڈسٹری ہمارے ترجمان اور تہذیب کے عکاس ہیں۔اسلام نے عورت کو وقار اور عزت دی ہے مگر ہم نےٹاپ ٹرینڈز کو اپنانے ، سٹیٹس بڑھانےکی دوڑ میں برائی کوخود کو بے مول کر دیا ہے۔ معاشرے میں اتنا عام کر دیا گیا ہے کہ ہم اسے غلط تسلیم کرنے پر بھی تیار نظر نہیں آتے۔تاریخ میں نظر دوڑائی جائے تو یہ پردہ مسلم خواتین کی پہچان ہو کرتا تھا باعث عزت واحترام تھا مگر آج باعث شرم اور سوالیہ نشان ہے۔آج ہم ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں ماضی کوفراموش کر چکے ہیں حال پراگندہ اور مستقل اندھیرنگری ہے۔
مردوزن نے اپنا مقام بھلا دیا ہے۔ خواتین نے دوپٹے اور حجاب کو جہالت اور ذہنی پسماندگی قرار دے کر فرار حاصل کر لیا ہے جس کا سب سے بڑا محرک وہ کلچر ہے جو ہمیں دکھایا جارہا ہے۔جس کی نسلِ نو نے اندھا دھند تقلید کی ہے۔ میرا مقصد ڈرامہ انڈسٹری کو الزام دینا نہیں ہے لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ جو ہماری قوم کو دکھایا ُاس کی اندھی تقلید کی ہے۔ آج ایک گیا ہے قوم نے دوسرے سے آگے نکلنے، جدید ملبوسات کو اپنانے کی دوڑ میں ہم اپنی روایات کو یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔اس راہ پر اتنی دور نکل چکے ہیں کہ اچھائی اور برائی کا فرق مٹ کر صحیفِہ ہستی سے نیست و نابود ہو چکا ہے۔شوبز انڈسٹری کی طرف سے اختیار کیا جانے والا ان کے ہم نوا نظر موقف( جس میں بہت سی عوام آتی ہے) ہے کہ جو اک�ریت میں مقبول ہو وہی دکھایا جاتا ہے۔ اگر ڈرامے مذہب اور معاشرے کی عکاسی کرنے لگیں تو عوام ان کو قبول نہیں کرے گی۔ اس نظریے کی قوی نفی عصر حاضر میںمقبول ہونے والے ترکی کے سیریل ڈیرلیس ارتغرل کو حاصل ہونے والی مقبولیت سے ہوتی ہے۔ یہسیریل مکمل طور پر اسلامی تاریخ پر بنایا گیاہے ۔ اسلامی معاشرے کی مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی گئی ہے خواتین اداکاروں کو مکمل لباس میں ڈوپٹہ اوڑھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اگر عوام مذہب اور معاشرت کو دیکھنا پسند نہ کرتی تو اس ڈرامے کو تاریخی حیثیت اور مقبولیت نہ ان کو دکھایا ملتی۔ عوام نے وہی دیکھنا ہے جو دکھایا جائے گا۔ عوام اگر فتنہ انگیز عناصر کو معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے سے نہ روک سکی تو اب بھیکسی اصلاحی قدم پر ان کو بے دخل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے پر اثر انداز ہونے والے عوامل پر نظر رکھے۔ حکمرانطبقہ اس بات کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہےکہ عوام کیا دیکھ سکتی ہے اور کس چیز پر پابندی عائد کرنی ہے ۔ اگر وہ یہ فیصلے کرنے سےقاصر ہیں تو کیا وہ واقعی حکمران ہیں؟ اسلامی حکومت پر لازم ہے کہ وہ ڈرامہ انڈسٹری کے سربراہان کو اخلاقیات اور معاشرت کو ملحوظخاطر رکھتے ہوۓ نشریات کو از سر نو مرتب کرنے کا حکم دے۔ اگر حکومِت وقت کرپشن کے الزامات میں سابق وزراء کو گرفتار کر سکتی ہے اور اختلافات کےنتیجے میں نجی ٹی وی چینلز کے مالکان کو حراست میں لے سکتی ہیں تو اس بات کا فیصلہ
مشکل نہیں کہ ان کے چینلز سے کیا نشر کیا جاسکتا ہے اور کس قسم کی نشریات ممنوع ہیں۔ اخلاقی کر پشن پر خاموشی کیوں؟عربی زبان کا ایک قول ہے :
“اذا كان رب البيت بالطبل ضاربا فلا تلم الاولاد فيه
على الرقص۔
جب صاحب خانہ ہی طبل بجا رہا ہو تو اولاد کو رقص کرنے پر ملامت نہ کرو ۔”
جب تک حکومت وقت معاشرے میں ناسور کی طرح سرایت کرتے ان عناصر کو جڑ سے کاٹ کر نہیں پھینکے گی معاشرے سے اخلاقی پستی اور تنزلی کے خاتمے کے امکانات مقفود ہیں۔ بلااشبہ حکومِت وقت پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن انفرادی حیثیت سے ہم پر لازم ہیںکہ معاشرے میں انتشار پھیلانے والے اور اخلاقیات سے مبرا مواد کی ترویج میں معاون نہ بنیں۔اگر ہماری قوم کےنوجوان بیدار ہو جائیں تو دنیا بھر کی کفروباطل کی قوتیں مل کر بھی ہمیں شکست فاش نہیں کر سکتیں۔باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کے لئے لازم ہے کہ اپنیروایات کو نہ بھلایا جائے۔ حکومت کسی گناہ میں تنہا نہیں ہوتی یہ قوم کا گناہ ہوتا ہے جس میں عوام اور حکمران یکساں ملوث ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لیں۔ بارگاہ خداوندی میں صدقِ دل سے توبہ کریں ۔ان سے بچنے کے لئے عہد صمیم کریں۔ اور آئندہ اپنے زوال کو اقبال میں بدلنے کے لیے سرفروشانہ جذبے کا مظاہرہ کریں۔
و الله اعلم بالصواب
Pakistan’s Drama Industry | پاکستان ڈرامہ انڈسٹری
Iqra Sarwar (Writer)Urdu Article | untold stories | about Pakistan’s drama industry.