- A Critical Analysis of some of the most famous article by Nimra Ahmed.
- Nimra ahmed "great writer"
(Nimra Ahmed (Review) — نمرہ احمد)2017۔کا زمانہ تھا جب کمرہ جماعت میں اپنے ساتھ والی کرسی پر براجمان لڑکی کو ایک کتاب میں غرق پایا۔ اس قدر غرق کہ دو تین بار آواز لگانے پر بھی اس نے سر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہ کی آخر کار تنگ آکر جب اسے جھنجوڑ کر دریافت کیا کہ آخر اتنے انحماک سے کیا پڑھا جا رہا ہے تو جواب ملا کہ کوئی نیا ناول آیا ہےنمرہ احمد نامی کسی لکھاری کا وہ پڑھ رہی تھیں محترمہ اور پھر اگلے کئی دن اسی ناول کے چرچوں نے میرے کانوں کے پردے کھا ڈالے۔ اتنی تعریفیں سننے کے بعد آخر کار میں نے بھی سوچا کیوں نہ اس ناول کو پڑھنے کا تجربہ خود پر بھی آزمایہ جائے۔آعاز میں تو یہ کافی مشکل مرحلہ ثابت ہوا اور پھر دو دن میں ہی بات دلچسپی کی طرف چل نکلی اور میں نے چند دنوں میں ناول کو پڑھ ڈالا یہاں میں ایک بات کہتی چلوں کہ وہ ناول میری زندگی کا پہلا ناول تھا اور یقین کیجئے پورے ناول میں ایسے لگا جیسے میں اسی دنیا میں کھو گئی ہوں کہیں۔ اتنی عمدہ تحریر میرے نزدیک کوئی نہیں تھی۔ شاید میری بات سے بہت سے لوگ اتفاق نہ کریں۔
کیونکہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ نمرہ احمد کسی انگریز رائٹر کو کاپی کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر میرے خیال سے اگر وہ کاپی کر بھی رہی ہیں تو کسی کو کاپی کرنا اور وہ بھی اس قدر خوبصورتی سے کہ پڑھنے والا اسی تخیلاتی دنیا میں کھو جائے یہ کام بھی اپنے آپ میں ایک انتہائی تخلیقی کام ہے۔ کہتے ہیں قلم ایک بہت بڑی طاقت ہے اور ایک اچھے لکھاری کی قلم میں لوگوں کی سوچ تک کو بدلنے کی قوت ہوتی ہے کچھ ایسی ہی طاقت ہمارے ملک کی اس لکھاری نمرہ احمد کے قلم میں بھی سمائی ہے۔ شاید یہ نام کچھ لوگوں کو بہت بیگانہ لگ رہا ہو لیکن وہ خواتین جو ناولز پڑھنے کا شوق رکھتی ہیں وہ اس نام سے بخوبی واقف ہوں گی۔ ان کے ناولز کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں کہ انسان کئی روز تک الفاظ اور کرداروں کے حصار سے خود کو نہیں نکال سکتا۔ اور کہانیاں اس قدر سبق آموز ہوتی ہیں کہ انسان جب اس حصار سے نکلتا ہے تو کچھ سیکھ کر ہی نکلتا ہے۔ اسلیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جنہوں نے تنقید کرنی ہے انہوں نے ہر حال میں کرنی ہے پھر چاہے انہیں ہیروں کے پیالے میں امرت ڈال کر سونے کے چمچ سے ہی کیوں نہ پلا دیا جائے۔
Nimra Ahmed (Review) — نمرہ احمد
اگر ان کےناولز کی خوبصورتی بیان کی جائے تو جس طرح انہوں نے جنت کے پتے میں عورت کی جدید سوچ کو اسلامی نقطہ نظر سے غلط ثابت کر کے پردے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے وہ اپنے آپ میں بہترین مثال ہے وہ کہتی ہیں کہ جس طرح ریت کا قطرہ سیپ کے اندر جا کر خود محفوظ کر لے تو وہ قیمتی موتی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ایسے ہی جب ایک لڑکی خود کو پردہ میں چھپا لیتی ہے تو اسکی وقعت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اور ساتھ ہی انہوں نے اس ناول میں ہمارے ملک کے جانباز ISI سے تعلق رکھنے والے جوانوں کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح ایک عورت ہی کسی خاندان کا شیرازہ بکھرنے سے بچا سکتی ہے اور یہ کہ کس طرح “ایک أیت زندگی بدل سکتی ہے صرف ایک آیت” ان تمام باتوں کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یقینا یہ ایک کامیاب کوشش تھی۔
اسکے بعد اگر انکی تحریر “مصحف” کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی وہ بنیادی طور پر انسان اور قرآن کا تعلق واضح کرنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ بڑی خوبصورتی سے الفاظ کو موتیوں کی صورت پرو کر وہ یہ بتاتی ہیں کہ انسان کو قرآن میں اپنے ہر سوال کا جواب مل جاتا ہے ہر مسئلے کا حل قرآن میں موجود ہے۔ ہمارے ہر سوال کا جواب قرأن دیتا ہے۔ اور پھر حالم جو کہ حال ہی میں پایہ تکمیل تک پہنچا ہے جس میں زمانوں کا ردو بدل کاامتزاج بڑے ہی خوبصورت الفاظ میں کیا گیا ہے۔اور اسکے علاوہ کئی ناولز ایسے ہیں جو پڑھنے والوں کو اپنے حصار میں کر لیتے ہیں جن میں قرا قرم کا تاج محل, ابلیس ، سانس ساکن تھی ، پارس اور اسکے علاوہ بے شمار چھوٹے بڑے نام شامل ہیں جن میں صرف پیار محبت کی بات نہی ہوتی اس سے بھی اوپر کی بات ہوتی ہے ایک فینٹسی ہے رومانس ہے ایک خوابوں کی دنیا ہے۔
انکےناولز کے کردار اسقدر خوبصورت ہوتے ہیں کہ بہت سی لڑکیا جہان سکندر اور فارس غازی جیسے ہمسفر کا خیال دل میں بسا لیتی ہیں۔ لوگوں کے ازہان میں تخیلات کی ایک الگ ہی دنیا بسا دی جاتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سوچ پر ہاوی ہو جانے والے الفاظ انکے ناولز میں درج ہوتے ہیں انکی بہترین تحریروں کا سلسلہ اگر ایسے کی چلتا رہا تو امید ہے لوگوں کے دلوں میں وہ مزید جگہ بنا لیں گی اور انکے ناولز عرصہ دراز تک پڑھے جائیں گے کیونکہ انکے مقابلے کاناول رائٹر آنا بہت مشکل نظر آتا ہے اس لیے انکی تحریری ہر دور میں پڑھی جائیں گی۔
Nimra Ahmed (Review) — نمرہ احمد
Mehar Fatima (editor)Urdu Article | Untold Stories | about Nimra ahmed.