- a newlywed widow bride.
- Someone's enmity destroyed someone's house.
- The sorrow of the newly wedded widow.
(Newly Wed Widow | نو بیاہی بیوہ).دیکھو میں نے لال جوڑاپہن لیا ہے تم چاہتے تھے نہ میں لال جوڑاپہنوں دیکھو چوڑیاں دیکھو یہ بھی لال ہیں اورمہندی ، دیکھو مہندی بھی لگا لی دیکھو دروازہ آج بھی تمہاری راہ تک رہا ہے اس دروازے کی اوٹ میں گھڑی میں بھی تمہاری جدائی کا ماتم کرتے کرتےتھک کے چور ہو چکی ہوں..
Alif VS Mere Paas Tum Ho | ”الف“ اور ”میرے پاس تم ہو
وہ اس زہر قاتل تنہائی میں خود کلامی کی عادی ہو چکی تھی اور نہ جانے اپنی تخیلاتی دنیا میں اپنے محبوب کو سامنے بٹھا کر کیا کچھ کہتی تھی کوئی نہیں جانتا تھا۔۔آج اسے اپنے ماں باپ کے گھر آئے پورے تین سال ہو چکے تھے اور ساتھ ہی ساتھ پورے تین سال ہو چکے تھے اس کو اپنی زندگی سے جدا ہوئے جی ہاں وہی زندگی جسے پورے حق سے اسلام اور معاشرے کو گواہ بنا کر اسکے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ لوگ کہتے تھے وہ اپنا زہنی توازن کھو چکی ہے کسی نے کہا کہ پاگل نہیں ہوئی صرف نفسیاتی مریضہ بن گئی ہے۔ وہ خاموش تھی بالکل خاموش کسی رات کی وحشت ناک تاریکی کی طرح اور سچ ہی تو تھا اسکےاندر تاحیات اندھیرا دفن کر دیا گیا تھا تاریک رات کی مانند ۔۔۔۔۔
اگر بولتی بھی تو محض اپنی تنہائی سے۔اور یہ حالت گزشتہ 3 برس سے ہی تھی۔ مگر اس کا وجود اندر ہی اندر کہیں دھاڑے مار رہا تھا جی ہاں دھاڑے مار کر رو رہا تھا فریاد کر رہا تھا اور ایک ہی سوال جو آج بھی اس خاموش اندھیرے میں اس کو نوچ رہا تھا کہ آخر کیوں اس سے وہ چھین لیا گیا جسکے ساتھ ابھی بہت سے چاہت بھرے لمحے گزارنے باقی تھے۔ جسکو زندگی کے سفر میں ہمسفر بنانے کا فیصلہ اللہ کی طرف سے آیا تھا۔
زندگی بہت حسین تھی مگر وقت بہت بے رحم تھا وہ اسکا ماموں زاد تھا اور بچپن کے محبت اور پسندیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دونوں کا نکاح کم عمری میں ہی کر دیا گیا مگر رخصتی میں ابھی کچھ وقت تھا۔ کہتے ہیں وقت سے پہلے کبھی کچھ نہیں ہوتا۔ نکاح کے بعد ملاقاتیں ہونے لگیں اور اسکے ہمسفر کا اس کے گھر آنا جانا معمول بن گیا۔ ہمیشہ اسکے آنے سے پہلے وہ دروازہ کھول کر اسکی راہ تکا کرتی تھی۔ کبھی دروازے کی اوٹ میں تو کبھی بالکونی میں۔ رفتہ رفتہ وہ محبت بھرے ایام اختتام پزیر ہونے کو آئے اور آخر کار اسکی رخصتی کا دن بھی آ گیا۔ ہاتھوں میں اسکے نام کی مہندی لگائے اور اسکا نام اس مہندی میں چھپا کے لکھے وہ یہ سوچ رہی تھی کہ آخر کیسے وہ اسکی ہتھیلی پر سے اپنانام ڈھونڈے گا۔ وہ ویسے بھی غیر معمولی نقوش کی مالک تھی اس دن لال عروسی لباس کے ساتھ زیورات اور میک اپ نے اسکے حسن کو جیسے چار چاند لگا دئیے تھے۔ وہ بار بار اپنے آپکو آئینے میں دیکھتی اور شرما جاتی نا جانے کتنے خیال دل میں بسائے آخر کو وہ اپنے پیا دیس روانہ کر دی گئی۔
بے شک وہ نکاح کے رشتے میں کئی سالوں پہلے بندھ چکے تھے مگر انکا یہ رشتہ آج بھی پاک تھا۔ ہر لڑکی کی طرح دل میں ہزاروں ارمان اور ڈھیروں چاہتوں کی امیدیں وابسطہ کیے اس نے اپنے قدم اس نئی دہلیز سے پار کر لئیے۔۔!!! گھر میں مہمانوں کی چہل پہل تھی سب لوگ نئی دلہن کو دیکھنے اسکے پاس براجمان تھے کچھ اسکے ساتھ تصاویر بنانے میں مگن تھے۔ کچھ دیر بعد دلہا میاں کو کسی نے آوز دی کہا باہر دوست بلا رہے ہیں تھوڑی دیر آ جائیں شغل لگاتے ہیں۔ دلہا میاں بیگم کو مصروف پا کر گھر کے سامنے والے احاطے میں دوستوں کے پاس چلے گئے۔ ادھر دلہن کو کمرہ عروسی میں لے جا کر بٹھا دیا گیا۔ آج بھی ہمیشہ کی طرح وہ دروازہ کھولے اپنے پیا کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد باہر فائرنگ کی آواز آنے لگی۔۔ سب یہی سمجھے دوست یار ہیں خوشی میں کر رہے ہوں گے۔ اور واقعی وہ فائرنگ خوشی میں ہی کی جا رہی تھی۔ مگر کون جانتا تھا کہ یہ خوشی اگلے ہی چندلمحوں میں صف ماتم بچھا دے گی۔ تھوڑی دیر بعد اسے گیٹ کھلنے کی آواز آئی اور پھر کسی کے چیخنے کی آواز آئی کہ بڑے بھیا کو گولی لگ گئی ہے وہ دلہن بنی بیٹھی ایک لمحے کو ٹھٹکی کہ یہ کس کی بات ہو رہی ہے پھر جب شور بڑھا تو ننگے پیروں باہر لپکی نظارہ وحشت زدہ تھا مگر اسے قبول کرنا تھا۔ سامنے خون سےلت پت وہ شخص چارپائی پہ لٹایا جا رہا تھا جس کے ساتھ چند گھنٹے پہلے اسے رخصت کیا گیا تھا وہ شخص جسکا وہ پوری زندگی دروازہ کھلا رکھ کر انتظار کرنے کے سپنے دیکھتی تھی وہ شخص جو اسکی کل کائنات تھا وہ شخص جسکا نام ہتھیلی کی مہندی میں ابھی تازہ تھا مگر کون جانتا تھا کہ اس نام کو اسی شخص کے خون سے ڈھانپا جائے گا۔وہ گولیاں جوخوشی کے لیے چلائی جا رہی تھیں غلطی سے پستول کا رخ مڑنے کی وجہ سے دلہے کو لگ گئی اور سینہ چیرتی ہوئی اندر کو دھنس گئی۔ وہ چیخ رہی تھی چلا رہی تھی کہ یہ نہیں ہو سکتا مگر وہ ہو چکا تھا رفتہ رفتہ محلے والے بھی اکٹھے ہونے لگے اور جو باتیں اسکے کانوں میں گونجیں وہ ناقابل یقین تھیں کسی نے کہا منحوس ہے کسی نے کہا پیر بھارے تھے اسکے۔۔۔ کسی نے کہا بد قسمت ہے جتنے منہ اتنی باتیں۔مگر وہ سکتے میں تھی ایک دم سن جیسے وہ آوازیں سماعتوں سے ٹکرا تو رہی تھیں مگر جواب دینے کی حمت نہیں تھی اسکے ساتھ کے خواب اور بیتے لمحے کسی فلم کی طرح آنکھوں کے آگے چل رہے تھے۔ اور اس دن کے بعد اج تک وہ اسی حالت میں ہے سسرال سے میکے آنا ہی تھا کیونکہ اس پر نحوست کا لیبل لگا کر اسی رات نکال دیا گیا تھا۔ مر نے والا تو مر گیا مگر اپنے ساتھ زندہ لاش کو چھوڑ گیا جو نہ مر سکتی ہے نہ جی سکتی ہے۔ ہم ایک پڑھی لکھی جاہل قوم ہی رہے جو اپنی غلطی تسلیم کرنے سے سرا سر قاصر نظر آتی ہے۔
کسی کی ایک غلطی نے دو زندگیاں اجاڑ دیں وہ زندگیاں جنکو بسے ابھی چند لمحے ہی بیتے تھے۔اور اس لڑکی کی زندگی پر ایک سوالیہ نشان چھوڑ گئے کہ کیا نوبیاہی بیوہ کو یہ سماج قبول کرے گا؟؟ اخر کب تک ہماری بیٹیاں یونہی اس ظالم سماج کی بھینٹ چڑھتی رہیں گی؟؟ کیا اسکی زندگی دوبارہ ان رنگوں کو سماج کے سامنے اوڑھ پائے گی جن رنگوں کو اوڑھتے ہی اس پر منحوسیت کا ٹیگ لگا دیا گیا تھا؟ یا پھر اس کی زندگی یہی کہتے گزر جائے گی کہ،
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
Newly Wed Widow | نو بیاہی بیوہ
Mehar Fatima (editor)Urdu Article | untold stories | about a newly wed bride.