Disabled Society | اپاہج سماج

Mental Health | دماغی حالت

Think before saying.

Untold Highlights
  • Maybe we all have darkness inside of us and some of us are better at dealing with it than others.
  • The bravest thing I ever did was continuing my life when I wanted to die,
  • Tough times never last, but tough people do.

(Mental Health | دماغی حالت)-آج میں بات کروں گی مینٹل ہیلتھ یعنی دماغی صحت کے بارے میں۔ اس موضوع پر اور بھی لکھاریوں نے لکھا ہے جس کے لیے میں ان سب کی ممنون ہوں۔ ممنون اس لیے ہوں کیونکہ ہمارے معاشرے میں اس موضوع پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کسی سائکیٹریسٹ کے پاس جانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہے یا کن وجوہات کی وجہ سے ایسا سمجھا جاتا ہے یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے۔ آج میں صرف اس بات پر روشنی ڈالوں گی کہ کن لوگوں اور وجوہات کی وجہ سے سائکیٹریسٹ کے پاس جانے کی یا پھر خودکشی کرنے کی نوبت آتی ہے۔اگر ایک معاشرے میں خودکشیاں عام ہو جائے تو کہیں نا کہیں معاشرہ جواب دہ ہوتا ہے۔ بلکہ جہاں ہم رہتے ہے وہاں تو پچاس فیصد معاشرہ ہی جواب دہ ہیں۔ سب سے پہلے تو ان باتوں کا ذکر کرتی ہوں جو دماغی صحت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہے۔کتنی سانولی ہوں۔” “کتنی موٹی ہوتی جا رہی ہوں۔” “اتنی عمر ہو گئی ہے ابھی بھی گھر بیٹھی ہو۔پڑھو گے نہیں تو کماؤ گے کیسے ، سانولے ہو کوئی بات نہیں لڑکوں کا رنگ کون دیکھتا ہے۔

۔

Mental Health | دماغی حالت

اور فلاں فلاں جملے۔ ایک بات میں یہاں واضح کردوں یہ فقرے اچانک حملہ نہیں کرتے یعنی ایک آدھ بار سن لینے سے انسان اداس ضرور ہوتا ہے مگر ڈپریشن یا خود کشی کی نوبت نہیں آتی۔ یہ بات میں نے ان لوگوں کے لیے کہی ہے جو یہ کہتے ہے کہ ‘ہم نے تو ایک ہی بار کہا تھا انسان کو اتنا بھی جذباتی نہیں ہونا چاہیے کہ خودکشی ہی کرلے۔سب سے پہلے تو میں بات کروں گی ان لوگوں کی جو کہتے ہے ‘ڈپریشن کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ہوتا ہے تو پھر ہمیں کیوں نہیں ہوتا ہم بھی تو وہی باتیں سنتے آئے ہیں جو تم لوگ سن رہے ہوں۔” اگر آپ ان لوگوں میں شامل ہے تو سب سے پہلے یہ کہ آپ لوگ بہت بہادر ہے۔ دوسرا کہ آپ لوگ بہادر ہونے کے ساتھ خوش قسمت بھی ہے کیونکہ آپ کی ذات مکمل ہے۔ بے شک اللہ نے ہر کسی کو مکمل بنایا ہے پر جو ڈپریشن کا شکار ہوتے ہے انہیں اپنی ذات نا مکمل لگتی ہے۔ انہیں اپنے اندر ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ اور جو لوگ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے، تو کہیں نا کہیں ان کے پیچھے، انہیں سہارا دینے والا، اعتماد دینے والا ہوتا ہے۔ وہ کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ وہ ‘کچھ’ بھی ہوسکتا ہے۔ آپ لوگ بہادر ہے اور میں یا جو کوئی بھی اس موضوع پر بات کرتا ہے۔ وہ آپ بہادر لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ وہ تو کمزور لوگوں کی بات کرتا ہے۔ وہ لوگ جو بہادری کا خول چڑھائے رکھتے ہیں، وہ لوگ جو زندگی کی ڈور میں بھاگتے بھاگتے تھک جاتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے پیچھے کچھ بھی نہیں ہوتا جو انہیں سہارا دے۔

۔اگر آپ پر اللہ کا کرم ہے اور آپ مکمل ہے تو دوسروں کو مکمل کرے۔ انہیں سہارا دے ان کا سہارا چھینے نہیں۔ اپنی سوچ کو وسعت دے۔ جو غلط ہے اس کو غلط ٹھہرانے میں جلدی نا کرے۔ آپ کا ایک لفظ۔ بس ایک لفظ۔ کسی کے لیے ‘آب حیات’ تو کسی کے لیے ‘موت کا پروانہ’ ثابت ہوسکتا ہے۔ ان لفظوں میں بہت تاثیر رکھی ہے اللہ نے۔ ان کا سوچ سمجھ کر استعمال کرے۔ اب میں باری باری چھوٹے سے بڑے درجے کے لحاظ سے بات کروں گی۔سب سے پہلے گھریلو سطح پر بات کرتے ہیں۔ میں یہ اچھے سے سمجھتی ہوں کہ ہمارے گھر والے ہمارا کبھی برا نہیں چاہتے اور نا ہی وہ ہمارا برا کرتے ہیں۔ پر اگر ضرورت ہے کسی چیز کی تو وہ توجہ کی ہے۔ جس زمانے سے وہ لوگ تعلق رکھتے ہیں وہاں اتنی نفرت نہیں ہوتی تھی۔ مجھے بہت افسوس ہوتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ آج جس معاشرے کا ہم حصہ ہے اس میں نفرت بہت عام ہوچکی ہے۔ والدین سے میری بس ایک ہی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کی بات سنے انہیں حوصلہ دے کہ وہ آپ سے باتیں شئیر کر سکے اور سب سے ضروری انہیں صحیح اور غلط کی تربیت دے۔ انہیں بتائے کہ کسی کو بے جا تکلیف نہیں دینی۔ چاہے وہ بے زبان جانور ہو یا جیتا جاگتا انسان۔

اب ذرا معاشرتی سطح پر بات کرتے ہیں۔

۔سب سے پہلے اسکولز کی بات کروں گی۔ آج کل ہمارے اسکولز میں ہو کیا رہا ہے۔ وہ بچے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ‘بچے من کے سچے’ ان بچوں کو آخر ہو کیا گیا ہے۔ میجوڑٹی بچے جھوٹ بولتے ہیں دوسروں کو (Bully) کرتے ہیں۔ اس سب کے لیے جواب دہ کون ہیں؟ وہ بچے، ٹیچرز یا ان کے ماں باپ۔ ماں باپ کہتے ہیں کہ بچے باہر سے سیکھ رہے ہیں۔ ٹیچرز کہتے ہیں کہ تربیت کرنا ہماری ذمہ داری نہیں۔ تو آخر جواب دہ ہے کون؟ کبھی سوچا ہے جب یہ بچے دوسرے معصوم بچوں کو bully کرتے ہیں تو ان معصوم بچوں پر کیا گزرتی ہے۔ ان کے ذہنوں پر کسطرح کا اثر پڑتا ہے۔ پھر کل کو یہی بچے جاکر عدم اعتمادی ، ڈپریشن کاشکار ہوتے ہیں یا تو پھر اس سے بھی برا۔ یہ بچے انہی ۔Bullies۔

کی فہرست میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔چلو یہ تو پھر بھی بچے ہیں۔ انہیں سمجھایا جاسکتا ہے پر سمجھائے کون؟ ہمارے بڑے تو خود یہ سب کرتے ہیں وہ بچوں کو کس منہ سے سمجھائے گئے۔ میں شوشل میڈیا کی بات کرتی ہوں۔ شوشل میڈیا میں تقریبا سو میں سے نویں فیصد پوسٹز کے نیچے برے کمنٹس مل جائے گئے۔ کوئی کسی کو برا بھلا کہہ رہا ہوگا تو کبھی کوئی کسی کو اور یہاں لفظ میں نے ‘برا بھلا’ استعمال کیا ہے۔ کیونکہ وہ لوگ تنقید نہیں برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی کسی ایکٹریس کو بول رہا ہوتا ہے تو کبھی کوئی کسی اور کو۔ ان لوگوں سے میرا ایک ہی سوال ہے آپ کون ہوتے ہیں برا بھلا کہنے والے؟ ہاں آپ کو رائے دینے کا حق ہے، تنقید کرنے کا حق ہے۔ پر برا بھلا کہنے کا حق نہیں ہیں۔ ہم برے نہیں ہیں نا یہ معاشرہ برا ہیں۔ ہم میں بس احساس کی کمی ہیں۔ خدارا ایک دوسرے کا احساس کرے۔

۔اختتام میں ، ان لوگوں سے جو اس معاشرے کی سوچ بدلنا چاہتے ہیں۔ ان سے صرف اتنا ہی کہوں گی کہ کیا ہوا اگر ہم آج کا معاشرہ نہیں بدل سکتے مگر ہم ‘کل’ کا معاشرہ تو بدل سکتے ہیں۔ معاشرہ ہم سے ہیں۔ ایک فرد ایک نسل بدل سکتا ہیں۔ اٹھے اور ہمت کرے۔ میں آپ سے کچھ زیادہ نہیں مانگ میں بس اتنا کہہ رہی ہوں کہ خدارا ایک دوسرے کا احساس کرے، چاہے وہ آپ کی فیملی ہو یا نا ہو۔ میں آپ کو گارنٹی دیتی ہوں کہ آپ کسی کا احساس کرے گے تو آپ کو اس کا بدلا ضرور ملے گا۔آئے ہاتھ بڑھائے، ہمت کرے اور دوسروں کو حوصلہ دے۔ کیا پتا کسی کو آپ کی وجہ سے زندگی مل جائے۔ سوچے، سمجھے اور عمل کرے۔ اللہ نگہبان۔

Mental Health | دماغی حالت

By A.F.K (writer)

Urdu Article | Untold Stories | About mental health of today’s society.

Untold Stories

We are an open source content providers for both Urdu and English readers and writers. We provide opportunity and a startup to those who inspires to become good writers. *Disclaimer: The contents of UntoldStoriess are the property of its contributors. They Share their views and opinion and have the right to withdraw their article at any time they deem necessary. US is not liable to pay for any content it is here to provide platform for free contribution and sharing with the world. Content creator discretion is recommended. Thankyou*

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button

Adblock Detected

Untold Storiess is a free to use platform where readers and writers alike can visit, share and contribute. We request you to kindly remove ad blocker to further access our website.