- A brief History of Hazrat Abbas (R.A)
- Role of Hazrat Abbas (R.A) in Islamic Successes
- The Battle of Karbala
(Hazrat Abbas (R.A) | کہتے ہیں عباس (المدار رضی اللہ) جسے)–4 شعبان 26 ہجری 15 مئی 647 عیسوی کے روشن دن اسلام کے ایک درخشاں ستارے نے حضرت علی ابنِ طالب اور حضرت فاطمہ بنت حازم کے گھر جنم لیا جنہیں ام بنین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ جنم لینے والی یہ ہستی اور یہ گھر دونوں ہی اسلام کی راہ میں ہمیں لازوال قربانیوں کی داستان رقم کرتے نظر آتے ہیں۔حضرت عباس المدار ابنِ علی وہ شخصیت ہیں جنہیں واقعہ کربلا میں اہل بیت سے انکی وفاداری اور بہادری کی وجہ سے نہایت عقیدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ حضرت عباس رضہ کی شادی لبابہ بنت عبیداللہ سے ہوئی جن سے انکے تین بیٹے تھے جن کے نام فضل ابن عباس رضی اللہ عنہ، قاسم ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عبیداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ تاریخ کے پنوں میں یہ بات ملتی ہے کہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے بارے میں بتایا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا بہت اداس محسوس کرنے لگے تو حضرت علی رضہ نے دعا کی کہ اللہ پاک انہیں ایک بیٹا عطا فرمائے جو کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی مدد کرے۔ حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا کے انتقال کے بعد حضرت علی نے اپنے بھائی حضرت عقیل ابنِ ابو طالب سے ایک ایسا گھرانہ ڈھونڈنے کا کہا جو بہادری میں اپنی مثال آپ ہو اور اس سلسلے میں انکی تلاش قبیلہ بنو کلاب قلبسی پر ختم ہوئی اور اسی قبیلے کی بیٹی فاطمہ بنت حاظم سے حضرت علی نے شادی کی (یاد رہے کہ حضرت بی بی فاطمتہ الزہرا کی وفات سے پہلے حضرت علی نے دوسری شادی نہیں کی تھی) انہی فاطمہ بنت حازم سے عباس المدار کی پیدائش مبارک ہوئی۔ حضرت عباس المدار نے کبھی خود کو حضر حسن اور حضرت حسین رضہ کے بھائی کی حیثیت سے نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ خود کو انکا غلام غلام کہتے تھے۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ ایک دفعہ کوفا کی مسجد میں سب بیٹھے تھے تو حضرت امام حسین علیہ السلام نے قمبر جو کہ حضرت علی علیہ السّلام کے وقت سے ساتھ تھے کو پینے کے لیے پانی لانے کو کہا تو حضرت عباس نےقمبر کو روک کر کہا کہ “اپنے آقا کے لیےپانی میں خود لاؤں گا” حضرت عباس رضہ نے جنگ صفین جو کہ حضرت معاویہ کے خلاف لڑی گئی تھی اور واقعہ کربلا دونوں میں حصہ لیا۔ جنگ صفین میں انکی بہادری اور حضرت علی کی طرح لڑنے کے انداز کی بناء پر حضرت معاویہ کے سپاہی انہیں حضرت علی سمجھے اور جب حضرت علی رضہ کے میدان میں آئے تو سپاہی بوکھلا گئے کہ یہ دوسرا شخص حضرت علی رضہ جیسا کون ہے۔ اسی طرح کربلا میں حضرت عباس رضہ کی شجاعت بھی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی گئ۔اور محرم میں اہل بیت کا پانی بند کر دیا گیا حضرت عباس لڑنا چاہتے تھے مگر امام حسین علیہ السلام نے انہیں اس کی اجازت نہ دی۔ بلکہ کہا کہ آپ باقی لوگوں کے ساتھ ملکر کنواں کھودیں تاکہ پانی مل سکے لیکن اس سلسلے میں کوئی کامیابی نہ مل سکی۔
Hazrat Abbas (R.A) | کہتے ہیں عباس (المدار رضی اللہ) جسے
حضرت عباس کو حضرت حسین علیہ السّلام نے کربلا کی جنگ میں ایک کمانڈر کا درجہ دیا تھا۔ 10 محرم کی شام کو حضرت حسین اس خیمے کے پاس سے گزرے جہاں حضرت قاسم ابنِ حسن (بھتیجے) حضرت علی اکبر ( امام حسین کے بیٹے) اور حضرت عباس رضہ اللہ تعالیٰ باتیں کر رہے رھے تھے تو انہوں نے سنا کہ حضرت علی اکبر کہہ رہے تھے کہ صبح وہ پہلے شخص بننا چاہتے ہیں جومیدان جنگ میں جائیں اور شہادت حاصل کریں۔ اس پر حضرت عباس رضہ نےکہا کہ آپ میرے آقا کے بیٹے ہیں آپ کیسے مجھ سے پہلےمیدان جنگ میں جا سکتے ہیں۔؟حضرت عباس رضہ یہ نہیں چاہتےتھے کہ ان سے پہلے انکے آقا یا اہل بیت کو کوئی تکلیف پہنچے اور وہ دیکھتے رہیں۔ حضرت امام حسین سب کی یہ گفتگو سن کر اندر تشریف لائے اور
فرمایا کہ“ہم یہاں اسلام کی سر بلندی کے لیے آئے ہیں ہمارا مقصد جنگ نہیں ہے”10 محرم کو حضرت حسین علیہ السّلام نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ وہ دریائے عرفات سے پیاسے بچوں کے لیے پانی لے آئیں۔ دریا کی طرف جاتے ہوئے ان کے راستے میں یزید کے سپاہی آئے مگر حضرت عباس علیہ السّلام نے بہادری سے انکا مقابلہ کر کہ انہیں جہنم واصل کر دیا لیکن پھران میں سے ایک نے حضرت عباس پر وار کیا انہیں زخمی کر دیا انکے دونوں بازو کٹ گئے۔ وہ معصوم بچوں کے لیے پانی لینے میں کامیاب نہ ہو سکے اور راستے میں ہی حضرت امام حسین علیہ السّلام انکے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے حضرت عباس رضہ کا سر اپنی گود میں رکھ کر کہا کہ کیا کیا ہے انہوں نے آپ کے ساتھ؟حضرت عباس رضہ نے کہا کہ “میرے آقا میرا خیال تھا کہ میں اب آپ کو نہیں دیکھ پاؤں گا پر شکر ہے اللہ تعالیٰ کا کہ آپ یہاں پہنچ گئے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ میری کچھ خواہشیں ہیں جو میں کہنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میری پہلی خواہش یہ ہے کہ آپ میری ایک آنکھ جو بچ گئی ہے اس پر خون جمع ہے اسے صاف کر دیں تاکہ میں آپ کو دیکھ سکوں۔ اور میری دوسری خواہش کہ میری لاش کو خیمے میں نہ لے جائیے گا کونکہ میں نے سکینہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں انکے لیے پانی لاؤں گا پر میں کامیاب نہیں ہو سکا، میری تیسری خواہش ہے کہ سکینہ کو یہاں میری لاش کے پاس نہ لایا جائے کہ وہ اپنی محبت کیوجہ سے برداشت نہ کر پائے گی۔

حضرت امام حسین علیہ السّلام نے انکی ساری خواہشیں پوری کی۔ اور فرمایا کہ ” عباس بچپن سے میری بھی ایک خواہش ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم بھی وہ پوری کر دو” فرمایا بچن سے تم ہمیشہ مجھے اپنا آقا کہتے آئے ہو آج اپنی ختم ہوتی ہوئی سانسوں میں بس ایک دفعہ مجھے اپنا بھائج کہہ کر پکارو۔ حضرت عباس علیہ السّلام نے کہا ” حسین میرے بھائی میرے امام” اور پھر انکی وفات ہو گئی۔ انہوں نے شہادت کا رتبہ حاصل کر لیا۔شیعاء مورخین کے مطابق انکی وفات 10 محرم الحرام 6 ہجری کو ہوئی۔ وہ عراق میں کربلا کے اسی میدان میں دفن ہیں جہاں وہ اپنے گھوڑے سے گرے تھے۔ لاجھوں زائریں ہر سال انکے روضہ مبارک پر حاضری دینے اور فاتحہ پڑھنےجاتے ہیں۔ عرفات کا دریا انکے مزار کے ساتھ اں ایک دائرہ بناتے ہوئے گزرتا ہے۔ اب یہ کہا جاتا ہے کہ عرفات خود عباس کے پاس آتا ہے۔ حضرت عباس کو القما (دریائے عرفات کا دوسرا نام) کے ہیرو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔لیکن شہید بھلا مرتے ہیں وہ تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اور شہید بھی ایسے جو اللہ کی راہ میں اور اہل بیت کی محبت میں انکے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے کیے شہادت حاصل کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو حدایت دے کہ ہم بھی ایک امت کی طرح فرقہ واریت کو چھوڑ کر اللہ کے ان جانبازوں کےنقش قدم پر چل سکیں۔آمین
Hazrat Abbas (R.A) | کہتے ہیں عباس (المدار رضی اللہ) جسے
Wajiha chishtyA brief description of our Islamic Hero — Hazrat Abbas (R.A)
Article description
Quality - 83%
Research - 85%
Creativity - 72%
Readability - 64%
Impression - 52%
71%
Content quality
Your feedback can build our confidence and enhance the writing skills of our writers.