Bitter Truth | تلخ حقیقتWomen Times | ویمن ٹائمز

Harassment and Discrimination | اذیت

Harassment destroys our morals۔

Untold Highlights
  • Sexual Harassment: Forgetting is difficult, remembering is worse.
  • stop bullying others, it hurts.
  • your one bad word can change someone's whole life.

(Harassment and Discrimination | اذیت)-آج ذرہ سی ناکامی سے ہم کنار ہوئی میں.اور یقین جانئے مجھے گمان گزرا ،بلکہ غالب گمان گزرا کہ میں بے حد اذیت سے دوچار ہورہی ہوں.ہر چند ساعتوں بعد نینوں میں نمی امد آتی۔۔دل میں ایک بوجھ سا تھا کہ میرا ہدف ،میری منزل۔ہر شئ ادھوری رہ گئی۔۔اب کیا ہوگا۔اس ہدف کی تکمیل تو ممکن ہی نہیں۔میں گم سم سی بیٹھی رب عزوجل سے دل ہی دل میں دریافت کررہی تھی کہ اس قدر اذیت ،اس قدر بے چینی کیوں۔یکدم ہی ذہن میں ڈپریشن ڈپریشن کا وہ لفظ بازگشت کرنے لگا۔میں خوف زدہ سی گاہے بگاہے خود کو شیشے میں دیکھتی۔آج کل ٹیلیویژن پہ ڈپریشن ڈپریشن کا بڑا شور چل رہا تھاہر کوئی اپنے واقعات سے باور کروارہا تھاکوئی خودکشی کی کوشش کر چکا تھا تو کوئی سر دیوار پہ بارہاں مارنے کی درد ناک روداد سنا رہا تھا۔میں پھر اک بار نگاہ اٹھا کے آئینے سے جھلکتے اپنے اس مایوس سے رخ کو تکنے لگی تو کیا میں بھی ڈپریشن کے اس موضی مرض میں تڑپنے کی خاطر تیار تھی ؟ کیا میں مزید اذیت سے دوچار ہونے والی تھی؟ایک آنسو ٹوٹ کے میرے عارضوں کو بھگو گیا۔جو گزشتہ تمام اشکوں کی ہی طرح گھر کے ہر فرد سے پوشیدہ رہا مگر صد شکر اس ذات باری تعالٰی سے مخفی نا رہ سکا۔یک دم ہی میرے لب تلاش سکون کی غرض سے صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ورد کرنے لگے۔پھر میں تقریباً دوڑتی ہوئے وضو خانے میں جا کہ جسم کے اعضاء کو پاک کرنے لگی۔ذہن ہر قسم کی سوچ سے عاری تھا دل البتہ اب بھی بے چینی سے ڈھرک رہا تھا۔اب اللہ جانے دل تھا یا نفس جو اب بھی انہیں اذیتوں میں مبتلا رہنے کا مرتکب تھا مجھے اپنے رب کے حضور جھکنے سے روک رہا تھا۔میں اسے نظر انداز کرتی اپنے رب کے حضور سکوت ڈالے کھڑی ہوگئی۔لب حولے حولے سورۃ الفاتحہ کے وسیلے سے اس ذات بے مثل سے مدد طلب کررہے تھے ،رہنمائی طلب کررہے تھے ،اس اذیت سے چھٹکارہ طلب کررہے تھے۔

اب اس رب کے حضور سجدہ زیر تھی میں۔اس کے بے حد قریب۔آج دل ہی راضی نہ تھا کہ پیشانی اٹھائی جائے۔خیال اب بھی کوئی نہ تھا مگر ایک محافظت کا سا احساس تھا۔کہ اب جس کے آگے جھکی ہوں۔وہ تھام لے گا۔وہ ڈپریشن کے اس مرض سے محفوظ کرلے گا۔وہ تو شئ رگ سے بھی قریب ہے ،وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔۔۔وہ معبود اپنے حقیر سے عبد کو اس اذیت سے کھینچ باہر لائے گا۔ پھر یک لخت اک دستک سی ہوئی۔کہاں؟ اسی گوشت کے ٹکرے پہ۔براہراست سوال کیا گیا اذیت کہتی کسے ہو ؟ ۔مارے خوف کے اسکی کبریائی بیان کرتی میں سجدے سے اٹھ بیٹھی پھر اگلے سجدے کی غرض سے پیشانی جائے نماز سے ٹکائی۔اس بے مثل رب کے بے مثال نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ سلام بھیجتے ہی میں ںے دائیں بائیں گردن گھمائی اور ھر جائے نماز کی مخملیں سطح پہ انگشت پھیرتی سوچ میں مگن ہوگئی۔اذیت کہتے کسے ہیں ہم ذہن میں جس پہلے خیال نے گردش کی وہ تھا جسمانی کرب مگر پھر یہ سوچ کہ سر جھٹکا کہ ذہنی کرب زیادہ ہیبت ناک ہے مگر اذیت کے لغوی معنی دیکھیں جائیں تو تھے کرب ،شدید تکلیف ، سوہان روح اور ایک معمولی سی ناکامی مجھے اس قدر تکلیف میں مبتلا کرگئی تھی کہ میں اسے “اذیت” کا لقب دینے لگی تھی خیالوں کا ایک ہجوم میرے جسم کے بالائی حصے میں آمد و رفت کا حامل تھا ،سر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں تھیں ۔میں شہادت کی انگشت سے گنپتی مسلتی،جاء نماز تہہ کرتی اٹھ کھڑی ہوئی نماز پڑھنے سے صبح کی ناکامی کے جو اثرات زائل ہوگئے تھے اب وہ پھر غالب آنے لگے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا نماز کا اثر ختم ہورہا تھا۔میں نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔بے چینے سی بے چینی تھی۔کیسے میرا خواب ،میرا جنون ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوتا کرچی کرچی ہوچکا تھا۔اشک افشانی کی ابتدا پھر ہوئی چاہتی تھی۔

Harassment and Discrimination | اذیت

میں نے سن رکھا تھا کہ ذہن کو دیگر مشاغل میں مصروف رکھنا ڈپریشن کے اس مرض میں افاقے کا باعث بنتا تھا۔یعنی میں یہ تسلیم کر چکی تھی کہ میں اس مرض کا شکار ہوں۔میں کتاب اٹھاتی پڑھنے لگی۔مگر بے سکونی تھی کہ کسی صورت کم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی ۔عشاء کی اذانیں بلند ہونے لگیں تھیں۔میں شکست خوردہ سی اپنے مایوس وجود کو گھسیٹتی پھر اپنے رب کے حضور سجدہ زیر ہوگئی،پھر سوال کرنے لگی کہ کیوں؟سجود میں پھر اسی دستک نے آن گھیرا اب کی بار میں نے سر نہ اٹھایا شاید اسی دستک سے جواب چاھتی تھی مگر بے سود میں پھر مایوس سی سلام پھیرتی اس قرمزی جاء نماز پہ انگشت سے اللہ اللہ لکھنے لگی پھر یک لخت ہی ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا ۔میری حقیقت کیا تھی کیا ایک رقیم کی حیثیت سے میں اس بات کا جواب نہ جانتی تھی۔ہاں میں جانتی تھی البتہ میں تو تمام مصیبت زدوں کو اس بات کا حل باور کرواتی آئی تھی میں کہا کرتی تھی “اذیت ہوتی کیا ہے جانتے یو ۔جب آپ حق پہ ہوں ،تمام شواہد آپ کے حق میں ہوں مگر پھر بھی آپ کو جھٹلایا جائےجب آپ درست ہیں یہ روز روشن کی مانند آشکار ہو مگر پھر بھی دلیلیوں کا مطالبہ کیا جائے وہ ہوتی ہے اذیت ، وہ ہوتی یے سوہان روح ،وہ ہوتا ہے کرب اور لوگ یہ جو مختصر مختصر سی باتوں پہ اذیت اذیت کا رونا رونے لگتے ہیں نا وہ غالباً اپنی تاریخ کو فراموش کیے بیٹھے ہیں” میں ششدر تھی۔میں کیسے بھول گئی تھی کہ اذیت کیا ہوتی ہے۔میں کیسے ایک چھوٹی سی آزمائش کو اذیت جیسی والہانہ کیفیت کا نام دیے بیٹھی تھی۔میں کیسے شکار ہو گئی تھی عدم توکل کا۔

سوچ کے دروازے وا ہوئے تو گزشتہ ماہ پوچھا جانے والا اک سوال بھی یاد آیا مجھے ایک شخص نے دریافت کیا تھا مجھ سے کہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں اذیت اسی کا نام ہے کیا آپ کبھی اس طرح کی سی کیفیت سے دوچار ہوئی ہیں۔اور میں استہزائیہ سر جھٹک کہ کہتی تھی کہ ضروری تو نہیں کہ انسان تب ہی کسی سے آشناء ہو جب وہ اس سے گزرے ،کیا میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،ان کے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اہل بیت کے واقعات میرے سامنے نہیں؟۔کیا میں انجان ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس طرح حق کی دلیلیں طلب کی جاتی رہیں ہیں؟، ایسے متعدد واقعات بچپن سے ہمیں ازبر کروائے جاتے رہے ہیں تو کیا اب بھی ہمیں ضرورت ہے اس کرب کو جانچنے کی اور خدا نا خواستہ اگر کبھی میں اس اذیت میں مبتلا ہو بھی جاؤں تو اللہ سے ثابت قدمی طلب کروں گی جس طرح مجھ سے پہلے مومنوں نے کی ، توکل طلب کروں گی جو مجھ سے پہلے صدق طلب کرتے آئیں ہیں ہاں یہ میں ہی تھی یہ میری ہی لسان سے ادا ہوئے الفاظ تھے یہی دوگلی زبان تھی وہ جو آج اس مختصر سی آزمائش پہ اپنے رب سے ثابت قدمی طلب کرنے کے بجائے اس سے پہ در پہ سوال کیے جارہی ہے۔میں اس بات سے قطعی انکاری نہیں کہ ڈپریشن اپنا وجود رکھتا ہے۔ڈاکٹر کی سکون کی غرض سے دی جانے والی تمام دوائیاں بجا۔مگر جو نسخہ ہمارے ہاتھ ہے۔۔۔جس کے اور ہمارے درمیان فقط ایک سجدے کا فاصلہ ہے۔اسے کیوں بھلا دیا ہے ہم نے۔اور چلیں اس بات کو بھی ترک کرتے ہیں۔ہم ہیں کون ڈپریشن کی تشخیص کرنے والے۔۔۔کیسے ایک معمولی سی آزمائش اس بات کا یقین دلا جاتی ہے کہ ہم ڈپریشن کا شکار ہوگئے ہیں۔یہ ڈپریشن ہے یا پھر دماغ میں نصب ہوا ایک لفظ۔سوشل میڈیا پہ جنگل کی آگ کی مانند پھیلتا یہ لفظ ڈپریشن ہمیں مقصود حیات سے دور لے آیا ہے۔

تنبیہ کی جارہی ہے ،پیغامات دہے جارہے ہیں ڈپریشن کا شکار لوگوں پہ ترس کھانے کے۔مگر کوئی یہ کیوں نہیں بتاتا کہ بات یہاں تک پہنچی کیسے۔کوئی ڈپریشن کے شکار اس شخص سے جو شاید فقط اپنے دماغ کے خلل کی بدولت یا پھر سوشل میڈیا کی بدولت ڈپریشن کا متحمل ہوا بیٹھا ہے۔ اسے جھنجھوڑ کر کیوں نہیں کہتا کہ جس نے تمھیں تخلیق کر کہ تم پہ احسان کیا کیا اس ذات پہ تمھارا توکل اس قدر کمزور ہے کہ ایک آزمائش نہ سہہ سکے۔۔۔اس سے شکوہ کرنے نکل پڑے۔اگر اب یہ کہا جائے کہ ڈپریشن کے اس لفظ کہ استعمال سے لوگ اس مرض کا شکار ہورہے ہیں تو بجا ہوگا۔میں مانتی ہوں پس منظر تکالیف ،درد ،ستم بے شمار ہوتے ہیں مگر جانتے ہیں توکل کو فراموش کرکہ اپنی آزمائشوں پہ بین ڈالتے ،اپنے رب کے ان عظیم احسانوں کے بدلے اس سے شکوہ کرتے اور بذات خود خود کو “اذیت” کا شکار بتانے والے ان اشخاص پہ ہنسی آتی ہے مجھے۔قہقہے لگانے کا دل کرتا ہے اور ہاں مجھے خود پہ بھی قہقہے لگانے کا دل کرتا ہے۔شاید ڈپریشن سے صحت یاب ہو چکی ہوں میں۔

Harassment and Discrimination | اذیت

Ayesha M. Siddique (Writer)

Urdu Article | Untold Stories | About harassment and discrimination issue in Pakistan.

Untold Stories

We are an open source content providers for both Urdu and English readers and writers. We provide opportunity and a startup to those who inspires to become good writers. *Disclaimer: The contents of UntoldStoriess are the property of its contributors. They Share their views and opinion and have the right to withdraw their article at any time they deem necessary. US is not liable to pay for any content it is here to provide platform for free contribution and sharing with the world. Content creator discretion is recommended. Thankyou*

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button

Adblock Detected

Untold Storiess is a free to use platform where readers and writers alike can visit, share and contribute. We request you to kindly remove ad blocker to further access our website.