- Hagia Sophia, one of the most beautiful mosques in the world.
- History of Hagia sophia,
- Hagia sophia beauty and magnificence.
(Hagia Sophia — History and Significance | ھائیہ صوفیہ/تاریخ، حقیقت اور اہمیت)- آجکل دنیا کے میڈیا پر پھیلی خبر آپ کی نظر سے مسلسل گزر رہی ہو گی کہ ترکی میں موجود قدیم مسجد ھائیہ صوفیا جسے 1923 میں مصطفی کمال نے ترکی کو سیکولر ملک بنانے کےاعلان کے بعد ایک میوزیم کا درجہ دے دیا تھا اسکو وہاں کی سپریم عدالت کے حکم پر 85 سال بعد پھر سے مسجد میں تبدیل کرنے کے احکام جاری ہوگئے ہیں.یاد رہے کہ ھائیہ صوفیا ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے. اس خبر سے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں میں خوشی کی ایک لہردوڑ گئ ہے لیکن دوسری طرف ایک بعد ایک کا نیا تنازعہ کھڑا بھی ہوتا نظر آ رہا ہےھائیہ صوفیا بازنائیت سلطنت کے وقت میں 537 بعد از مسیح میں ایک کریسچن بادشاہ جسٹینین کے دور حکومت میں تعمیر کی گئی اور یہ اس دور کے حساب سے فن تعمیر کا ایک لا جواب شاہکار تھی. اسکی تعمیر کے بعد مسیحوں نے اسکو اس وقت کی دنیا کے سب سے بڑے چرچ کا درجہ دے دیا. یہ جگہ پوری دنیا کے مسیحوں کےلیے بہت معتبر اور مقدس سمجھی جاتی تھی. بازنائیت سلطنت کو مشرقی رومن سلطنت کے نام سے بھی جانا جاتاہے۔۔ اور ھائیہ صوفیا اس وقت اس سلطنت کی سرگرمیوں کا کڑھ سمجھا جاتا تھا. اس سے پہلے یہ سلطنت مغربی رومن سلطنت کے نام سے. جانی جاتی تھی لیکن اس وقت کے بادشاہ کوسٹ ٹائن نے اس سلطنت کو نئے سرے سےمنظم کرنے کے لیےاپنا دارالحکومت روم شہر کو چھوڑ کر استنبول کو بنا لیا اور اس وقت اس نے اس جگہ کو قسطنطنیہ کا نام دے دیا جو کہ اس کے اپنے نام کی مناسبت سے رکھا گیا تھا جسے بعد میں سلطنت عثمانیہ میں استنبول کا نام دے دیا گیا.۔
Hagia Sophia — History and Significance | ھائیہ صوفیہ/تاریخ، حقیقت اور اہمیت
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی وقت جب رومن سلطنت خود کو دوبارہ سےمنظم کر رہی تھی تو اسکی دوسری طرف مسلمان ایک بڑی طاقت کے طور پر یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے علاقوں میں بہت تیزی سے ابھر کےسامنے آ رہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور کے بعد یہ دوسری دفعہ تھاکہ یوں مسلمان دنیا میں طاقت قوت کے طور پر ابھرے. آہستہ آہستہ مسلمانوں نے اپنی اہم اور پراسرار جنگی حکمت عملی کی بناپر بازنطینی سلطنت کو کمزور کر دیا اور یہ حکومت محض قسطنطنیہ تک ہی محدود رہ گئی. . اس حوالے سے تاریخدان اکٹھے ہیں کہ بازنطینی بادشاہ جنگوں سے اکتا کر اپنی ہار تسلیم کر چکے تھے لیکن پھر بھی اپنی آخری حکمت عملی کے طور پر انہوں نے قسطنطنیہ میں ایک بہت بڑا قلعہ تعمیر کرنا شروع کیااور اس حوالے سے انکا پہلا قدم ترکی کے شہر استنبول میں قلعے کا قیام تھا تا کہ بیرانی حملہ آوروں سے نپٹا جا سکے.14 حملے کیے جو سب اس قلعے کی مظبوطی کا اندازہ اس چیز سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے اس پر تقریبا ناکام رہے اور اسی قلعے کے اندر مسجد ھائیہ صوفیا بھی موجود تھی لیکن پھر سلطنت عثمانیہ کے سلطان محمد 2 نے 29 مئی 1453 کو یہ قلعہ فتح کر لیا جو بازنطینی سلطنت کی تباہی کے تابوت پہ ٹھونکا گیا آخری کیل ثابت ہوا اور مسلمانوں نے اس شہر کو فتح کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی.اس علاقے میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے قلعے کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اسکے ساتھ ساتھ ھائیہصوفیا کو بھی جو کہ ہزار سالہ پرانا چرچ تھا، ایک مسجد میں تبدیل کر دیا. کچھ مورخین کے مطابق ھائیہ صوفیا کو مسجد ببانے کے لیے سلطان نے اسکی قیمت ادا کر کے اسکو خرید لیا تھا. جبکہ دوسری طرف کچھ مؤرخ کہتے ہیں کہ اس وقت کے رواج کے مطابق جب کسی جگہ کو لڑ کر فتح حاصل کر لی جاتی تھی تو اکثر چرچ کو مسجد اور اکثر مساجد کو چرچ میں تبدیل کر دیا جاتا تھا اور اسی رواج کے مطابق ھائیہ صوفیا کو بھی مسجد بنا دیا گیا. .بہرحال دونوں صورتوں میں اس قدم کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سپین میں مسلمانوں کی شکست کے بعد تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب مسجدوں کو چرچ میں تبدیل کر دیا گیا.۔
قسطنطنیہ کی یہ جنگ تاریخ کی مشکل ترین جنگوں میں سے ایک تھی کیونکہ اس کو فتح کرنے کے لیے مسلمانوں کو قلعے کی دیواروں کو توڑنا پڑا جو انتہائی مشکل مرحلہ تھا. اس فتح کے بعد ایک لمبے عرصے تک500 سال تک اس مسجد میں ازان کی صدائیں گونجتی رہی اور یہ سلطنت عثمانیہ کا سنہری دور کہلاتا ہے.تقریبا1000 سال سے زیادہ قائم رہنے والی بازنطینی سلطنت، جو مسیحوں کی سرگرمیوں کا گڑھ تھی، اسکو ختم کرنے والا سلطان 21 سالہ محمد 2 تھا اسکے علاقے کو 21 دن کی گھناسن کی جنگ کے بعد، جس میں دونوں طرفہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے، فتح کیا تھا. ھائیہ صوفیا کا مسلمانوں کے ہاتھ چلے جانا آج بھی مسیحی برادری کے دلوں میں ناسور بن کر پل رہا ہے. سلطنت عثمانیہ کے اختتام تک یہاں مسلمان نماز ادا کرتے رہے لیکن پھر بیسویں صدی کے آغاز میں ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جدید ترکی کی بنیاد رکھی گئی. جسکے لیڈر مصطفیٰ کمال اتاترک تھے جن کی سیکولر سوچ نےسیکولر نظام رائج کیا اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کے لیے ھائیہ صوفیا کو مسجد سے بدل کر ایک میوزیم کا درجہ دے دیا کیونکہ انکا یہ ماننا تھا کہ یہ جگہ مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اسی لیے اس کو ایک غیر متنازعہ حیثیت دینے کا فیصلہ کیا جائے گا تاکہ ترکی پوری دنیامیں ایک روشن خیال ملک کی حیثیت سے ابھرے اور اسکے ساتھ ساتھ سیاحت کو بھی فروغ حاصل ہو۔
لیکناب 85 سال کے بعد طیب اردگان کے دور حکومت میں عدالتی فیصلے کے زریعے اسکو دوبارہ مسجد کا درجہ دے دیا گیا ہےجس میں ہر طرف سے شدید ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے خاص طور پر مغربی ممالک کی طرف سے جو کہ کریسچن ممالک ہیں جیسا کہ امریکہ، روس وغیرہ ارر یہاں تک کہ یونیسکو نے بھی اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کیونکہ ھائیہ صوفیا یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں شامل ہےاور انہوں نے ترکیکو دھمکی دے دی ہے کہ اگر ترکی اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتا تو اسکا ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کا سٹیٹس واپس لیا جا سکتا ہے جو کہ ترکی کے لیےنقصان کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ ھائیہ صوفیا کو دیکھنے ہر سال 4 ملین کی تعداد میں سیاحدنیا بھر سے آتے ہیں جس میں سب سے زیادہ تعداد یورپ کے سیاحوں کی ہوتی ہے.اسکے ساتھ ساتھ ترکی کے یورپین یونین میں شامل ہونے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے پہلےجو دنیا ترکی کو سیکولر کی نظر سے دیکھتی تھی ااب مغرب میں اس کا تاثر ایک مزہبی ریاست کے طور پر جاۓ گا لیکن اگر مسلم کی بات کریں تو اس میں دو تاثر پاۓ جاتے ہیں کچھ ممالک اس فیصلے سے خوش نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بہت سے مسلمانوں کا کہنا یہ ہے کہ اس سے ترکی کی ساکھ اور انسانی رواداری کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے. لیکن ترکی کی موجودہ حکومت مسلمانوں کے تابناک ماضی کو پھر سے زندہ کرنے پر یقین رکھتی ہے اور انکی ھائیہ صوفیا کا مسجد بنانا اس سلسلے کی طرف پہلا قدم ہے۔
بقول ترک حکومت یہ انکا اندرونی معاملہ ہے اور ترکی ایک طرح سے صحیح بھی ہے کیونکہ ہم اگر دنیا میں نظر دوڑائیں تو ہمیں اسرائیل، بھارت، امریکہ اور بہت سے ایسے ممالک نظر آئیں گے جو کہ اپنی اپنی حیثیت میں اپنے اپنے مزہب روایات کو اعلی بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیںاور بہت سے مسلمان ممالک اس وجہ سے ترکی کے اس فیصلے کو سراہتے نظر آ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ سپین کی مسجد قرطبہ کیمثال بھی دی جا رہی ہے جو مسلمانوں کے روشن ماضی کی مثال ہے جسلو ایک چرچ بنا دیا گیا تھا. اس مثال کودیکھ کر بھی اس فیصلے کو سراہا جا رہا ہے اور پاکستان کی حکومت بھی اپنے مزہب کے احیاء پر یقین رکھتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاک ترک ھکومت اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری پر بھی یقین رکھتی ہیں. ترکی کے اس فیصلے کے کیا نتائج ہوں گے اور یہ فیصلہ کس حد تک درست ثابت ہو گا یہ وقت ہی بتائے گا۔.
Hagia Sophia — History and Significance | ھائیہ صوفیہ/تاریخ، حقیقت اور اہمیت
Wajiha chishty (writer)Urdu Article | Untold Stories | about Hagia Sophia — History And Significance.