- Our education system.
- Role of education in our daily life.
- Difference of educated and illiterate people.
(Education and Illiteracy | تعلیم اور جہالت)-ہم سب عام طور پر روزمرہ کی زندگی میں عالم اور جاہل جیسے الفاظ سنتے ہیں اور عام طور پر ان الفاظ کو ایک دوسرے کا متضاد بھی سمجھ لیتے ہیں۔ اگر کوئی ہم سے عالم کے بابت دریافت کرے تو یقیناً ہمارے ذہن میں تعلیم یافتہ کا لفظ کہیں نہ کہیں سے طواف کرتا ہوا گزر تا ہے اور جاہل کے نام پر کسی ان پڑھ کا چیتھڑوں میں لپٹا وجود ہمارے سامنے آجاتا ہے تو کبھی کوئی ایسا شخص ماضی کے دھندلکوں سےآپ کے ذہن میں ابھرتا ہے جو آپ کے سامنے کوئی خلاف فطرت کام کر گزرا ہو۔مگر شب و روز بیسوں دفعہ یہ جملہ بھی ہمارے کانوں کے پردوں پر ارتعاش پیدا کرتا ہے، ُُُُُُُُُُُ ’فلاں شخص نے تعلیم تو حاصل کر لی مگر جاہل کا جاہل ہی رہا‘ اس کے جواب میں بزرگوں کو یہ کہتے بھی سنا کہ میاں! بندہ چاہے جتنا مرضی پڑھ لے تعلیم سے انسان کی جہالت نہیں جاتی۔ مطلب یہ کہ تعلیم اور جہالت دو الگ الگ چیزیں ہوئیں اور ان میں سے کوئی ایک شے دوسری پر اثر انداز نہیں ہوتی؟ اس بات کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ تعلیم اور جہالت کی تعریف کیسے کرتے ہیں ان دو الفاظ سے آپ مراد کیا لیتے ہیں؟ پہلے آتے ہیں جہالت کی طرف‘ لیں جی آ گئے‘ جہالت‘ جب یہ لفظ آپ کے سامنے بولا جاتا ہے تو پہلی بات جو آپ کے ذہن میں آتی ہے وہ کیا ہے؟ کسی اندھیری غار کا تصور کہیں سے اٹھتا ہے یعنی جہالت کو ظلمت سے تعبیر کیا جا سکتا اور تعلیم کیا ہے؟ روشنی؟ جو اس اندھیرے کو چیر دینے کا حوصلہ رکھتی ہے۔
Education and Illiteracy | تعلیم اور جہالت
اگر ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں تو تعلیم اور جہالت ایک دوسرے کے مخالف ہوئے اور یہ بھی جہاں ایک شے ہو گی وہ دوسری کا تدارک کرے گی۔اب اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعلیم جہالت پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ مگر کیا یہ درست ہے؟عام طور پر جب تعلیم کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو ذہن کے نہاں خانوں میں وردی میں ملبوس چھوٹے چھوٹے بچے اپنے ننھے کاندھوں پر علم کا بوجھ لادے یا لال اینٹوں سے بنے کسی سکول یا جدید سہولیات سے لیس کسی رومانوی جامعہ کا تصور چھا جاتا ہے۔ اگر تعلیم جنم کے بعد سے لے کر عمر کی کسی خاص حد تک کسی خاص سند کے حصول تک کا نام ہے تو پھر یہ شاید ظلمت میں نور والی کیفیت پیدا کرنے کی اہل نہیں۔اچھی ڈگری لے کر کسی بڑی کرسی پر پتلون اوربوشرٹ پہن کر بیٹھنے والے بابو کو اگر سائل سے بات کرنے کی تمیز نہی تو یقیناً یہ جہالت ہی ہے۔
اب آتے ہیں ایک اور زاویہ کی طرف تعلیم کا ایک اور تصور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے جیون کے دوران جو بھی علم حاصل کرتا ہے جو کچھ سیکھتا ہے یہ اس کی تعلیم ہوئی چاہے وہ کچھ بھی ہو یعنی اس لحاظ سے صبح آٹھ بجے سکول جانے والا احمد‘ اور اپنے کاندھے پر اوزاروں کا بوجھ لادے استاد کی دکان پر جانے والا اسلم‘ ایک ہاتھ میں گھی سے چوپڑی روٹی اور دوسرے ہاتھ میں سپارہ پکڑے مدرسہ کو جا نے والا اکرم سب ایک ہی کشتی کے مسافر نظر آتے ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ تعلیم کی تعبیر اگر اس لحاظ سے کی جائے تو یقیناًیہ جہالت کی قاتل ہوئی۔
اب ہم اس بات پر اکتفا کر سکتے ہیں کہ یہ ضروری نہی کہ ہر طرح کی تعلیم جہالت کش ہوتی ہے مگر کسی نہ کسی حد تک وہ اس بابت اپنا کردار ادا کرتی ہے چونکہ تعلیم اس شمشیر کی حیثیت رکھتی ہے جو اندھیروں کا جگر چیرنے کا حوصلہ رکھتی ہے‘یہ وہ نور ہے جس کی آمد سے ظلمت کے سائے چھٹنے لگتے ہیں۔تو کیوں نہ اس بحث سے بالا تر ہو کر کہ یہ کس حد تک ہمیں اور ہمارے معاشرے کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر نور کی چادروں میں لپیٹ سکتی ہے ہم صرف یہ سوچ کر ہی اسے اپنا لیں کہ یہ کسی حد تک تو کچھ کر ہی سکتی ہے۔
Education and Illiteracy | تعلیم اور جہالت
Wajeeh Ur Rehman (Writer)Urdu Article | Untold Stories | about education and illiteracy.