- Dowry A curs or a blessing?
- Why Dowry is necessary.
- Dowry is a blessing,
(Dowry a Blessing (Part 2) | جہیز ایک نعمت)-بیٹے کے سرکش رویے کو دیکھ کر وحیدہ بیگم آبدیدہ ہو گئیں۔آصفہ فوراً کھسک ار ماں کے کندھے سے چپک گئی۔آنسو صاف کرنے کے ساتھ وہ کنکھیوں سے بیٹے کے تاثرات بھی ملاحظہ فرمارہی تھیں۔احمد یکدم شرمندہ ہوگیا اور معذرت خوانہ نظروں سےماں کی جانب دیکھنے لگا۔بولنے کے لیے لب کھولتا مگر پھر بینچ لیتا۔آخر ہمت کر کے کہنے لگا۔”امی میرا مطلب وہ نہیں تھا۔میں صرف اتنا کہہ رہا ہوں کہ اس طرح جہیز کے نام پر مطالبات کرنے سے ہماری ہی عزت گھٹے گی۔ وہ لوگ کیا سوچیں گے کہ ہم کس قدر لالچی اور مادہ پرست لوگ ہیں”۔احمد ابھی بات مکمل نہ کرنے پایا تھا کہ وحیدہ بیگم بات کاٹتے ہوئے بولیں”ہاں ہاں اب برخوردار کو پرایوں کی فکر ہے۔
وہ لڑکی ابھی آئی ہی نہیں اس گھر میں اور ابھی سے لڑائیاں پڑنے لگی ہیں اگر آگئی تو کیا ہوگا۔”ماں نے تو گویا بیٹے پر چڑھائی ہی کر ڈالی تھی۔”امی نازمین بیچ میں کہاں سے آگئی ہے۔بات محض اتنی ہے کہ جہیز ایک لانت ہے۔ایسا ناسور ہے جس نے ہمارے معاشرے میں اقدار کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔صرف جہیز کی وجہ سے لوگوں کی بیٹیوں کے بال شادی کے انتظار میں سفید ہوجاتے ہیں۔محض اس وجہ سے کہ ان کے والدین اتنے صاحب استطاعت نہیں کہ معقول جہیز سے سسرالیوں کا منہ بند کرواسکیں۔آپ کیا چاہتی ہیں کہ زندگی کہ اس اہم موقع پہ میں اس لعنت کو اپنی خوشیوں کا حصہ بنا لوں؟
Dowry a Blessing (Part 2) | جہیز ایک نعمت
احمد تقریری انداز میں اپنی بات سنا رہا تھا اور آصفہ بھائی کو فخریہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔وحیدہ بیگم جو اس سارے بیان کے دوران چہرہ دوسری جانب کیے رہی تھیں رخ موڑ کر بیٹے کو دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں بولیں۔”بات سنو بیٹا یہ کوئی ٹیلی-ویژن کا ڈرامہ نہیں ہے اور نہ ہی تم فیس بک پر کسی کو چاروں خانے چت کرنے کی مہم پہ نکلے ہو۔یہ اصل زندگی ہے اور یہاں لڑکی کے ماں باپ اتنے غریب نہیں کہ بیٹی کو معقول جہیز نہ دے سکیں ۔وہ لوگ اتنی بڑی جائیداد پہ سانپ بنے بیٹھے ہیں ۔کیا اپنی بیٹی کو کچھ بھی نہ دیں گے؟ان کی بیٹی کا ان کی جائیداد پہ حق ہے اور وہ ویسے نہ دیں تو جہیز کی صورت ہی سہی۔کیا تم اس لڑکی کو اس کے حق سے محروم کردینا چاہتے ہو؟” ماں نے سوالیہ نظروں سے بکٹے کو دیکھا۔
احمد کو سمجھ نہ آئی کہ اب کیا جواب دے۔خاموش بیٹے کو دیکھ کر وحیدہ بیگم مزید شیر ہوئیں ۔”اور بیٹا عقل سے کام لو۔یہی دنیا کا دستور ہے۔اور ویسے بھی پانچ برس سے تم نوکری کررہے ہو ابھی تک وہ پھٹیچر مہران ہی لے پائے ہو اپنے پیسے سے اگر اس کا باپ تمھیں تحفے میں ایک اچھی گاڑی دینا چاہتا ہے تو کیا حرج ہے ۔ماں باپ ساری زندگی اولاد کے لیے ہی تو کماتے ہیں۔تم آج سے بیس سال بعد شاید اس قابل ہو کہ وہ سامان خرید سکو جو تمھاری بیوی جہیز میں لے کر آرہی ہے۔زندگی کے پچاس برس گزار کر جو جہیز باپ اپنی بیٹی کو دیتا ہے وہ تم پچیس تیس سال کی عمر میں نہیں کما سکتے۔لہذا ضد چھوڑو اور عقل کا مظاہرہ کرو۔جہیز تمھاری بیوی کا حق ہے اور ہم بس یہی مانگ رہے ہیں”اسی کے ساتھ وحیدہ بیگم نے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک ڈالا۔احمد جو پہلے ہی ماں سے روز روز کی بحث سے اکتا کر کشمکش میں مبتلا تھا ۔اب مکمل ماں کی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔
“ٹھیک ہے امی جیسی آپ کی مرضی”۔اتنا کہہ کر احمد اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔وحیدہ بیگم نے فاتحانہ نظروں سے نند کو دیکھا جو ستائش سے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔آصفہ نے مایوسی سے سر جھکا لیا۔پہلے تو وہ ماں کے ساتھ تھی مگر بھائی کی باتیں سن کر وہ بھی ماں کے خلاف ہوچکی تھی مگر ماں سے مخالفت کے اظہار کا موقع ہی نہ ملا ۔بھائی صاحب نے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیئے ۔
لو جناب تو یہ تھی کہانی ۔اولاد جتنا مرضی پڑھ لے ،جتنے فلسفے دہرالے کبھی ماں سے جیت نہیں سکتی۔آخر میں مائیں ہی اپنی چلاتی ہیں۔ایسے نہیں تو ویسے سہی۔مگر کبھی کبھار اپنی کرتے ہوئے وہ بھول جاتی ہیں کہ جس مذہب نے ماں کو اتنا اونچا مقام دیا ہے وہ اولاد کو اسی مذہب کے احکامات سے دور کررہی ہیں۔جانتے ہوئے نہ سہی انجانے میں ہی سہی۔مگر جو بھی ہوااحمد میاں کے حق میں تو اچھا ہوگیا ۔بھئی اگر ماں کی نہ سنتے تو بیٹھے بٹھائے لاکھوں کے جہیز سے ہاتھ دھو بیٹھتے ۔احمد میاں جیسے حضرات کے لیے تو “جہیز ایک نعمت ہے”۔
(ختم شدہ)
Dowry a Blessing (Part 2) | جہیز ایک نعمت
Nimra Haq (Writer)Urdu Article | Untold Stories | about Dowry a Blessing.