All About Islam — انسان اور اسلام

Chance (Final Part) | موقع

Our choice towards our life.

Untold Highlights
  • It is in our own hands where ww lead our lives.
  • We can decide what is right or wrong in life only by our thoughts.
  • Life is not a bed of roses.

(Chance (Part 1) | موقع)-اس سارے واقعے میں ایک بات بڑی عجیب تھی۔مجھے ایک بار بھی یہ سوچ نہ آئی تھی کہ میرے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہوا۔یعنی میں ہی کیوں۔مجھے ہی کیوں زندہ دفنادیا گیا۔ایسا کیا کیا تھا میں نے۔میں ایک بار بھی شکوہ کناں نہ ہو ئی۔وجہ شاید میری اپنے گناہوں سے شناسائی تھی۔میں نے کرب سے آنکھیں موند لیں۔ناجانے ابھی اور کتنا وقت تھا میری سانسوں کی مالا ٹوٹنے میں۔ناجانے اور کتنا وقت باقی تھا میری اس اذیت کے ختم ہونے میں۔میں پھر سے اپنے ہوش کھو رہی تھی۔یا شاید نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی۔وجہ جسم میں اٹھنے والی درد کی شدید ٹیسیں تھیں۔اب کی بار آنکھ کسی چیز کی تھرتھراہٹ سے کھلی۔میں سہم گئی کہ شاید بچپن کی سنی کہانیاں اب سچ ہونے والیں تھیں ۔۔اصل امتحان اب شروع ہوا تھا۔۔۔شاید اب مجھے انسانی جسم کھانے والوں کا سامنا کرنا تھا۔لیکن نہیں  اس تھرتھراہٹ کے ھمراہ کوئی اور آواز بھی تھی۔بہت معدوم۔بہت پست۔لیکن میں سن سکتی تھی۔۔۔یہ۔۔۔یہ موبائل کی آواز تھی۔مگر میں۔میں کیا کرسکتی تھی۔میں تو بے بس تھی۔ہلنے سے بھی قاصر۔دراصل میں ھمت ہار چکی تھی۔۔۔میں شدید خوف کے عالم میں تھی۔مگر یقین جانیے مجھے موت سے ڈر نہیں لگرہا تھا۔میں اپنے آئیندہ حالات سے خوف زدہ تھی۔میری سوچوں میں ارتعاش کسی کے قدموں کی چاپ نے پیدا کیا تھا۔مگر یہ فقط ایک شخص کے قدم نہیں تھے۔شاید کئیں لوگ تھے

Chance (Final Part) | موقع

میں نے ایک بار پھر چلانے کی کوشش کی۔۔۔اس بار آواز نے ذرا ساتھ دیا اور مجھے “بچاؤ”بولنے میں کامرانی حاصل ہوگئی۔ آواز کافی پست نکلی تھی سو باہر سے کسی کے سننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔اور پھر وہ آوازیں بھی دم توڑ گئیں اور ساتھ ہی میری امید بھی۔لیکن نہیں۔۔۔۔نہیں میرے اوپر پڑا بوجھ ہٹتا جارہا تھا۔۔۔میں نے پھر چیخنا چاھا۔ گلے پر زیادہ زور دینے سے میں پھر نیم مردہ سی ہوگئی تھی۔لیکن میں نے دیکھا کہ مجھے اس تاریخی سے نکالا جارہا تھا۔مجھے “موقع “مل گیا تھا۔۔میں آزاد کرالی گئی تھی۔میں نہیں جانتی وہ مسیحا کون تھا۔۔۔کیوں آیا تھا۔شاید وہی موبائل لینے جس کی آواز سنی تھی میں نے۔۔۔اور میں جاننا بھی نہیں چاھتی تھی۔۔۔۔میں اس مسیحا کی مشکور ضرور تھی لیکن جس ذات نے اسے مجھ تک پہنچایا تھا کیا اس سے زیادہ بھی کسی کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا مجھے؟۔مگر اللہ تعالی جب کسی کو آپ کی مدد کے لیے تعین کرتے ہیں نا تو آپ کو اس ذات پاک کی کبریائی کا احساس دلانے کے لیے آشنا بھی کیا جاتا ہے کہ آپ کی مدد کیسے کی گئی۔۔مجھے بھی بادیر اس بات کا علم ہوا کی کیسے میری سانسوں کی مالا کو ٹوٹنے سے بچایا گیا۔وہ شخص ایک عام آدمی تھا جوکہ بابا کے دوست کے بیٹے کی حیثیت سے میری تدفین میں شریک ہوا تھا۔اس کا موبائل اندر کیسے گرا وہ خود اس بات سے بے خبر ہے۔شاید کسی کا دھکا لگنے سے۔اپنے گھر جانے کے بعد اسے اپنے موبائل کا ہوش آیا۔۔۔بہت سوچنے کے بعد اسے لگا کہ شاید وہ قبرستان میں بھول آیا ہے اپنا فون۔۔۔فون ضروری تھا سو وہ اپنے دوستوں کے ھمراہ اسے ڈھونڈنے قبرستان آن پہنچا۔۔میری قبر کے آس پاس تلاش کرتے ہوئے اسکی سماعت میں میری آواز گونجی۔وہی آواز جو میں خود بھی بہت مشکل سے سن پائی تھی۔اب عین ممکن تھا کہ وہ اس آواز کو مجھ پر قبر کا عذاب سمجھ کر بھاگ جاتا۔لیکن پھر وہ محاورہ یاد آجاتا ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔۔اس نے اسی ایک انتہائی پست آواز کی بنا پر میری قبر کھودی۔اور پھر میری بار بار چیخنے کی سعی نے اسے یقین دلادیا کہ میں واقعی زندہ ہوں۔یقین نہیں آتا نا۔میرے لیے بھی اس بات پر یقین کرنا ناممکن تھا لیکن کرنا میری مجبوری تھی کہ مجھ پہ بیتی تھی۔اب فقط مجھے اس واقعے سے ھدایت حاصل کرنی تھی۔پھر وہی گھٹیا ،گری ہوئی زندگی نہیں گزارنی تھی۔۔۔مجھے بدلنا تھا۔مجھے اب کی بار یہ نعمت ضائع نہیں کرنی تھی۔۔۔

مجھے ہسپتال لے جایا گیا۔۔ایکسیڈنٹ کے زخموں کو دوبارہ چھیڑا گیا۔مجھے فالج کا اٹیک بھی ہوا تھا۔شاید چھ گھنٹے مردہ کھانے میں گزارنے کی وجہ سے۔میرے والدین خوشی سے نہال تھے۔۔۔کیوں نہ ہوتے۔کوئی پیارا واپس آجائے تو خوشی تو ہوتی ہے نا۔۔۔طبیعت میں ذرا بہتری آئی تو میرے اندر اپنی اس کہانی کو میرے ماں باپ کی زبانی سننے کا اشتیاق جاگا۔میں جانتی ہوں میری ان باتوں پر یقین کرنا آپ کے بس میں نہ ہوگا۔۔۔مگر یقین کیجیے اس واقعے نے میری ذہنی حالت کو ذرا بھی ضرر نہ پہنچایا تھا۔۔۔بلکہ مزید مستحکم کردیا تھا۔ایکسیڈینٹ کے بعد مجھے کراچی کے ایک معقول ہسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تھا۔میرے دوست تو میرے سامنے ہی دم توڑ گئے تھے۔میری حالت بھی کافی تشویش ناک تھی۔۔۔مجھے وینٹیلیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا۔اور پھر میرے والدین کو میرے دل بند ہونے کی خبر دی گئی۔جوکہ فقط ڈاکٹر کی کوتاہی تھی۔۔۔میرے بھائی کی دبئی سے واپسی تک مجھے سرد خانے میں رکھا گیا اور پھر میری تدفین کردی گئی۔میں حیران صرف اس بات پہ ہوں کہ کیا دوران تدفین بھی کسی کو میرے زندہ ہونے کی خبر نہیں ہوئی ؟…یقین نہیں آتا نا۔۔۔مگر پھر مجھے اس کریم کی حکمتیں یاد آتی ہیں۔۔۔اور پھر مجھے یقین کرنے میں ذرہ دیر نہیں لگتی۔۔۔اب بابا نے اس ڈاکٹر پر کیس کردیا ہے۔۔۔لوگ کہتے ہیں وہ پہلے بھی کئیں بار اپنی کوتاہیوں سے کتنوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے۔۔ماور اثر ورسوخ کے باعث کوئی کیس بھی نہیں ٹک پاتا اس پہ۔لہذا بابا کی آواز بھی جلد ہی بند کروادی جائے گی۔۔مگر پتا ہے کیا۔مجھے انصاف نہیں چاہیے۔میں نے اسے معاف کیا۔۔۔بلکہ میں معاف کرنے نا کرنے والی ہوتی کون ہوں۔میں تو اب بھی خود غرضی ہی دکھا رہی ہوں۔اپنی معافی کے لیے کہہ رہی ہوں کہ میں نے اسے معاف کیا۔وہ اذیتیں بہت بری تھیں۔آخرت کی تیاری کرلیجیے ۔ہر کسی کو “موقع “نہیں ملا کرتا۔۔۔

ازقلم عائشہ محمد صدیق۔۔

Chance (Final Part) | موقع

Ayesha Siddique (Writer)

Urdu Article | Untold Stories | about chance.

Untold Stories

We are an open source content providers for both Urdu and English readers and writers. We provide opportunity and a startup to those who inspires to become good writers. *Disclaimer: The contents of UntoldStoriess are the property of its contributors. They Share their views and opinion and have the right to withdraw their article at any time they deem necessary. US is not liable to pay for any content it is here to provide platform for free contribution and sharing with the world. Content creator discretion is recommended. Thankyou*

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button

Adblock Detected

Untold Storiess is a free to use platform where readers and writers alike can visit, share and contribute. We request you to kindly remove ad blocker to further access our website.