Disabled Society | اپاہج سماج

Challenge Your Criticism | تنقید

A story of criticism.

Untold Highlights
  • Don't criticize what you can't understand.
  • Decide what applies and learn from it, and let the rest go.
  • Any fool can criticize, condemn and complain and most fools do.

(Challenge Your Criticism | تنقید)-  میں ہاتھ میں قلم پکڑے سوچوں میں کھوئی تھی کہ کس موضوع پر بات کروں ایک خیال نے میرے سوچوں کے در پر دستک دی جس کے آتے ہی میرے قلم نے سو کی اسپیٹ پکڑی اور میں سوچوں کے باب میں الجھتی چلے گئی اور میرے ہاتھ سیاہی سے ورق کو رنگیں کرتے رہے ….  وہ خیال کہانی کی صورت میں ناجانے کب تبدیل ہوا مجھے اس کا گمان نہ ہوا بس جس طرح گیت کے سُر اپنی سرمستی میں مست کردیتے ہیں ایسے ہی اس کہانی نے مجھے اپنا اسیر کیا ….چلیں آئیں ہم چلتے ہیں میری سوچوں کے سنگ ایک نئی دنیا میں نئے زاویئے کی کھوج میں …. یہ کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشست پر بیٹھ ہر چیز بھلائے اپنی ہی دنیا میں مگن تھا کہ کسی نے اسے رکھ کر چوک مارا تو وہ ماتھے پر کسی چیز کے لگنے پر اپنی تصوراتی دنیا سے لوٹ آیا اور چونک کر سامنے دیکھ جہاں ایک لڑکی  آنکھوں پر کالا چشمہ جمائے کھڑی اسے گھور  رہی تھی اس کے دیکھتے ہی اس لڑکی نے ماتھے پر بل ڈالے کہا ” میں نے تمہیں آخری موقع دیا تھا لیکن تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اس لیے کلاس سے دفا ہو جاؤ … وہ چپ چاپ اٹھا اور  اپنے ہم جماعت کی  سرگوشیاں اور طنزیہ مسکراہٹیں برداشت کرتا کلاس سے نکلتا چلا گیا ..۔

اس نے سرمئی دروازے پر دستک دی ایک بار… دو بار اور تیسری بار پر دروازہ کھول دیا گیا وہ قدم قدم چلتا اندر داخل ہوا اور نڈھال سے پلنگ پر بیگ پھنکتے تھکے انداز میں لیٹ گیا تبھی ایک نفیس سی عورت داخل ہوئیں اور شفقت سموئے بولیں ” بیٹا کیا ہوا ” ان کے اسطرح پوچھنے پر وہ ایک لفظ نہ بول بس دکھی نظروں سے انہیں دیکھ اور کچھ آنسوؤں ٹوٹ کر اس کی گال پر بہے گئے …وہ اس کے ساتھ بیٹھیں گئیں فکرمندی اور محبت سے پاش لہجے میں پوچھا “میری جان کیا ہوا ہے ” وہ جو خاموشی سے آنسو بہہ رہا تھا رنجیدہ آواز میں بول ” امی مس نے مجھے کلاس سے نکال دیا “

Challenge Your Criticism | تنقید

خاتون نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ” کیوں نکالا.. ؟؟”اس نے سر جھکائے بتایا “امی ہمارے اسکول میں ایک ڈرامہ کا مقابلہ تھا میں اس کے لیے آڈیشن دینے  گیا لیکن مس نے مجھے (لڑکھڑاتی آواز میں )   آڈیشن دینے نہیں دیا اور کہا میں زندگی میں کچھ نہیں کر سکتا اور نکال دیا.. بھری ہوئی آواز میں بولا ” کلاس میں آکر میں دکھی تھا سوچ رہا ” اور اس نے کلاس میں پیش آنے والا سارا ماجرا ان کے گوش گزار دیا

اے زمانہ تو کیوں تنقید کرتا ہے….

اے زمانہ تو کیوں سکون سے جینے نہیں دیتا….

اے زمانہ وقت کی ریل میں تو کیوں وفا نہیں کرتا….

اے زمانہ تیری کڑواہٹ نے کتنی لی ہیں جانیں ….

اے زمانہ یہ ہی تو ستم ہے تیرا ہی تو غم ہے …. 

اس کی ساری بات  سن کر انہوں نے خاموشی سے سر ہاں میں ہلایا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اٹھیں اور اسے کہا ” میری جان جاؤ کپڑے تبدیل کرکے آؤ ہم کھانا کھاتے ہیں …. “وہ چپ چاپ آدھے نم چہرے کے ساتھ کمرے میں چلا گیا…. وہ دسترخوان پر کھانا لگا کر وہیں بیٹھ گئیں .وہ کپڑے تبدیل کرکے اداس چہرے کے ساتھ آہستہ قدم اٹھاتا چلا آیا اور جوتا اتار کر سرخ کلین پر بیٹھ گیا اور خاموشی سے کھانا نکلنے لگا . وہ جو اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہیں تھیں کچھ سوچتے ہوئے اپنی پلیٹ  میں سالن نکال اور لقمہ منہ میں ڈال اور اسطرح اگلا لقمہ منہ میں ڈالا.  ان کے درمیان خاموشی قائم تھی جیسے ان کی نوالا چباتی آواز نے توڑا ” بیٹا تمہیں پتا ہے رنگ برنگی تیلی کس طرح اپنے انڈے سے نکلتی ہے….”

اس نے سر اٹھا کر ایک نگاہ ان پر ڈالی اور نفی میں سر ہلا دیا… ؟اس کے سر ہلانے پر انہوں نے جگ کو دسترخوان پر رکھتے ہوئے کہا ” وہ زور لگاتی اس کے زور لگانے سے انڈے میں دراڑیں آجاتی ہیں لیکن ٹوٹتا نہیں پھر وہ اور زور لگاتی اور  اتنی جدوجہد کے بعد کہیں جا کر انڈہ ٹوٹتا ہے “اور وہ سانس لینے کے لیے روکیں اور بولیں ” تمہیں پتا اگر اس دوران کوئی اس انڈے کو توڑ دیے تو کیا ہوتا ہے.”وہ جو کھانا چھوڑے انہیں سن رہا تھا تجسّس سے پوچھا کیا ؟وہ اس کے اسطرح پوچھنے پر مسکرا کر بولیں” اگر کوئی اس دوران اس کے انڈے کو توڑ دے  تو پتا ہے تتلی کے جو پر ہیں وہ نہ اتنے خوبصورت ہوتے اور نہ بڑھتے ہیں اور وہ اڑ نہیں پاتی . رکیں اور  بولیں ” تم سوچو وہ تتلی انڈے میں ہے اور زور لگا رہی ہے اس کے اسطرح زور لگنے سے دیکھنے والوں کو لگے گا کہ وہ پاگل ہے وقت برباد کررہی ہے وغیرہ لیکن اس کے پر بڑے اور خوبصورت ہوتے ہیں .. “وہ رکیں پانی کا گلاس لبوں سے لگایا اور رکھ کر بولیں ” تم سوچ رہے ہو گے کہ میں کیوں بتا رہی ہوں میرے بیٹا تم بھی اسی تتلی کی مانند ہو تم کہتے ہو کہ یہ لوگ تمہیں کہتے ہیں تم نہیں کرسکتے میری ایک بات ذہین نشین کر لو درحقیقت یہ لوگ تمہیں یہ کہہ رہے ہیں  ,” تم ہی ہو جو کر سکتے ہو… تم ہی ہو جو کرسکتے ۔

تمہیں تو کرنا ہے جیسے تتلی کو پتا ہے کہ اگر کوئی محبت سے اس نکال دے گا تو وہ نکل تو جائے گئی لیکن وہ پھر نکارہ ہوجائے گی اس لیے وہ مشکلات کو برداشت کرتی ہے وہ محنت کرتی مشقت کرتی وہ جانتی وہ جو کرسکتی وہ کوئی نہیں کر سکتا. وہ کسی کی پروا نہیں کرتی.  اس لیے بیٹا آپ کو بھی چاہیے کہ آپ بھی کسی کی پروا نہ کرو آپ دوسروں کی باتوں کو بس یہ سوچ کر بھول جاؤ وہ ٹھیک ہوں گیں لیکن میں بہترین ہوں جو میں وہ کوئی نہیں ہوسکتا  انہیں وقت دو تمہیں معلوم ہوگا وقت بہترین جواب دہ ہے. یاد رکھو تمہیں ان کی باتوں کو اپنی طاقت بنانا ہے کمزوری نہیں تمہیں لوگوں کے لیے مثال بننا ہے تہمیں وہ تارا بنانا ہے جس کے ہونے اور نہ ہونے سے آسمان کو فرق پڑھتا ہے میرا بیٹا ….” وہ جو ہر چیز بھولے ان کے لفظوں کے سحر میں تھا آخر کار بات کے اختتام پر اسے سمجھ آگئی تھی کہ مجھے اس تتلی کی طرح اپنے اردگرد جو لوگوں کا خول ہے اسے توڑنا ہے اور اپنا آپ منوانا ہے .وہ  اب پلیٹ اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئیں تھیں اور  کچن میں چلیں گیں تھیں .  ان کے جاتے وہ کچھ دیر وہیں بیٹھ اپنا جائزہ لیتا رہا اور پختہ آرادہ کرکے اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ کر دیکھنے کا عزم کرتے ایک نئے سفر پر رواں دواں ہو گیا۔

وقت گزرتا گیا دن مہینے میں اور مہینے سال میں بدلتے گئے وہ بڑا ہوتا گیا سیکھتا گیا بڑھتا گیا…وہ سفر میں کبھی گرتا تو کبھی اٹھتا کبھی برداشت کرتا تو کبھی صبر کرتا وہ وقت کی اسراع سے میل کھانےکی کوشش میں آخر کار ستاروں سنگ مل ہی گیا.ہر طرف روشنیوں کا دریا تھا اور اقطاروں میں درجنوں کرسیاں لگیں ہوئیں تھیں وہ احمر رنگ کرپٹ پر قدم جماتا جلتا اسٹیج تک آیا اور مائک تھام کر ایک روشن نظر اطراف میں دوڑی جہاں لوگ کرسیوں پر بیٹھے اس کے بولنے کے منتظر تھے وہ مائک کو منہ کے قریب کرتا اپنا تعارف کرواتا بولا” ہمارے معاشرے میں صرف کامیاب وہ ہوسکتا ہے جو پوزیشن لیتا جو ہوشیار ہے باقی سب تو کہیں آتے ہی نہیں ہم سب کی یہی سوچ ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں کامیاب میرے جیسے بچے بھی ہوسکتے لیکن میرے جیسوں کے گرد اتنی آوازیں بلند ہوتیں ہیں کہ تم نہیں کرسکتے تم تو قابل بھی نہیں تم ہو کیا وغیرہ وغیرہ نتجتہً ایسے بچے کامیابی کی دوڑ میں حصہ لینا دور کی بات وہ تو اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں لیکن میں شکر گزار ہوں اپنے رب کا شاید میں آج یہاں کیا کہیں بھی نہیں ہوتا اگر میری ماں مجھے سکھاتی نہ کہ مشکلات میں صبر کرو اور  تنقید کرنے والے لوگ تمہاری زندگی میں اسلیے آئیں ہیں کہ تمہیں بڑا آدمی بنا سکیں اور سب سے چمکتا روشن ستارہ بنا سکیں.. 

“یقین کریں ” اس نے  دمکتی آنکھوں سے کہا ” میری کامیابی کی وجہ یہی ہے جب جب کسی نے کہا ہے کہ تم نہیں کرسکتے میں نے کیا … میں نے کیا … ““اور میں آج  میرے ہر سننے والوں سے کہوں گا تم ہی ہو جو کر سکتے ہو تمہیں ہی ہو جو کرسکتے…”  اور شکریہ کرتا اسٹیچ سے اترتا چلا گیا.تالیوں کے شور نے آخر تک اس کا پیچھا کیا جب تک وہ اپنی جگہ پر بیٹھ نہ گیا..  ان تالیوں کی گونج نے اسے ماضی یاد کروایا .. کلاس سے نکالے جانا یاد کروایا تھا لیکن اس نے آنکھیں بند کر کے کھولیں تو وہ یاد دھوئیں کی طرح ماحول میں تحلیل ہوگئی.

Challenge Your Criticism | تنقید

Zoya satay (writer)

Urdu Article | Untold Stories | about the criticism of society.

Untold Stories

We are an open source content providers for both Urdu and English readers and writers. We provide opportunity and a startup to those who inspires to become good writers. *Disclaimer: The contents of UntoldStoriess are the property of its contributors. They Share their views and opinion and have the right to withdraw their article at any time they deem necessary. US is not liable to pay for any content it is here to provide platform for free contribution and sharing with the world. Content creator discretion is recommended. Thankyou*

Related Articles

Leave a Reply

Back to top button

Adblock Detected

Untold Storiess is a free to use platform where readers and writers alike can visit, share and contribute. We request you to kindly remove ad blocker to further access our website.