- Our reaction towards Covid-19.
- Muslims and Covid-19.
- The courtesy of Coronavirus .
(The Courtesy of Coronavirus | زحمت کےبھیس میں رحمت)-انسان جو آج سے کچھ ماہ پہلے اپنی کی ہوئی ترقی پراتراتا نہیں تھکتا تھا آج اپنی تمام تر ترقی کے باوجود گھروں میں دبکا پڑا ہے۔یہ وہی طاقتور انسان ہے جو کبھی چاند پر قدم رکھنے کے دعوے کرتا تھا تو کبھی مارس کو سر کرنے کے لیے مشن بھیجتا تھا اور کبھی بلیک ہول کی دریافت پر پھولا نہیں سما رہا تھا۔خود کو ناقابل تسخیر بنانے اور دوسرے انسانوں پر اپنی بڑائی ثابت کرنے کے چکر میں بندوق توپ ٹینک جہاز اور یہاں تک کہ ایٹم بم تک بنا ڈالا۔آج یہی ٹینک جہاز اور ایٹم بم ان کو بنانے والے کا منہ چڑھا رہے ہیں۔یہ تمام کی تمام ترقی ایک چھوٹے سے وائرس کے آگے اوندھے منہ گری پڑی ہے۔جہاں یہ وائرس دنیا میں خوف اور معاشی ابتری لے کر آیا ہے وہاں یہ ہم انسانوں کو بہت کچھ باور بھی کروا گیا ہے۔ہم انسان پیسے کی لالچ ترقی کی دوڑ اور اپنے رتبے کی بڑھوتری کی کاوشوں میں اس طرح مگن ہوئے تھے کہ اپنی زندگی کا اصل مقصد بھول چکے تھے۔اس وائرس نے جہاں ہمیں بازاروں سے دور کیا ہے وہیں ہمیں اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔
The Courtesy of Coronavirus | زحمت کےبھیس میں رحمت
اور ہمیں اس بات سے بخوبی آگاہ کروا دیا کہ زندگی کا سکون بازاروں میں نہیں بلکہ گھروں اور رشتوں میں ہے۔ گھریلو زندگی کے پہلو کے علاوہ بھی اس وائرس نے ہماری آنکھوں سے فریب کا چشمہ اتارا ہے اور ہمیں بہت سی ایسی چیزوں کی حقیقت سے آشکار کروایا ہے جس کو ہم نے اپنے لئے لازم و ملزوم قرار دے دیا تھا۔
اب ہم یہ جان گئے ہیں کہ ہم گھر کے کھانے پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں۔ہم بلاضرورت کی لگثری چیزوں کے بغیر بھی زندگی گزار سکتے ہیں ہم تھوڑے پر بھی اکتفا کر سکتے ہیں اس وائرس سے ایک جو بہت ہی اچھی چیز ہمارے معاشرے میں سامنے آئی ہے وہ یہ کہ لوگوں نے اپنے اردگرد غریبوں کی طرف توجہ کی ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہے جس سے ہمارے معاشرے میں احساس اور رواداری کی فضا قائم ہوئی ہے۔ کرونا نے سرمایہ دارانہ نظام پر بھی کاری ضرب لگائی ہے اور انسانی ضروریات اور زندگی کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ جہاں بڑی بڑی معیشت تباہی کے دہانے پر ہیں وہاں ان کو یہ بھی باور ہو گیا ہے کہ ہمیں ماضی میں دفاعی بجٹ بڑھانے کی بجائے صحت عامہ اور انسانی بہبود کے لئے کام کرنے کی ضرورت تھی
کچھ اور لوازمات میں ایک اور رسم ایسی تھی جو ہم نے اپنے پہ واجب کر لی تھی وہ تھی شادی میں غیر اسلامی رسومات۔شرعی طریقہ میں شادی کی صرف دو ہی رسمیں نکاح اور ولیمہ ہے۔لیکن ہم نے معاشرے میں اپنی ظاہری عزت اور وقار بنانے کے لئے بہت سی فضول اور دوسرے کلچر کی رسومات کو مسلم شادی کا حصہ بنا لیا تھا جس کی وجہ سے غریب انسان اپنی اولاد کی شادی کرنے سے قاصر تھا
اور اپنی اولاد کی شادی کرنے کے لیے اسے قرض اٹھانا پڑتا تھا۔اب ہمارے پاس یہ گولڈن موقع ہے کہ ہم اپنے بچوں کی شادی اسلامی شعار کے مطابق سادگی سے سرانجام دینا شروع کریں. جس سے پیسے کا ضیاع بھی نہیں ہوگا اور غریب اپنی غریبی چھپانے کے لیے قرض نہیں اٹھاتا پھرے گا. کہنے کو میرے پاس اور بھی بہت حقائق ہیں مگر اختتام چند لفظوں میں کروں گی بحیثیت مسلمان بہت سے لوگوں کا یہ سوچنا ہے کہ یہ وائرس اور بیماری اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لئے عذاب ناراضگی کا اظہار ہے۔اور خدا تعالی نے ہمارے لیے اپنی مسجدوں اور حرم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔
اب چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے پاس اس ٹائم کی کثرت ہے ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے گناہوں سے سے معافی مانگیں اور زیادہ وقت خدا کو راضی کرنے میں صرف کریں۔ اسی میں ہم سب کی بقاء ہے۔ آج ہم فلسطین اور کشمیر کے ان لوگوں کا دکھ اور تڑپ بھی سمجھ سکتے ہیں جنہیں عبادت کے لیے مساجد میں جانے سے روک دیا جاتا تھا ہم ان لوگوں کی تڑپ اور دکھ کو ایک خبر سے زیادہ کچھ نہ گردانتے تھے۔ آج جب اپنے اردگرد کی مساجد میں نہ جا سکنے کی بات سنتے ہیں تو دل اداس ہو جاتا ہے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنے رب کو پہچان لیں کہ وہی سپر پاور ہے
بحیثیت مسلمان بہت سے لوگوں کا یہ سوچنا ہے کہ یہ وائرس اور بیماری اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لئے عذاب اور ناراضگی کا اظہار ہے۔اور خدا تعالی نے ہمارے لیے اپنی مسجدوں اور حرم کے دروازے بند کر دیے ہیں۔اب چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے پاس اس ٹائم کی کثرت ہے ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے گناہوں سے سے معافی مانگیں اور زیادہ وقت خدا کو راضی کرنے میں صرف کریں۔ اسی میں ہم سب کی بقاء ہے۔
The Courtesy of Coronavirus | زحمت کےبھیس میں رحمت
Seemab Zahra (Writer)Urdu Article | Untold Stories | about the courtesy of Coronavirus.